Book Name:Sachi Tauba Shab-e-Braat 1440

پىارے پىارے اسلامى بھائىو!عنقریب ماہِ مضان  آنے کو ہے ، پکی نیت کر لیجئے کہ ہم رمضان المبارک کے تمام روزے رکھیں گے۔ جتنی بھی گرمی ہوئی اسے برداشت کرتے ہوئے ایک بھی روزہ نہیں چھوڑیں گے۔ اِنْ شَآءَ اللہ

ہر وہ عبادت جس کے کرنے میں مشقت و پریشانی کا سامنا ہو ، اللہ پاک کی رحمت سےاس کا ثواب مزید بڑھ جاتا ہے۔ گرمی کی شدت ، دھوپ کی تپش اور موسم کی سختی کو سہتے ہوئے رمضان کا روزہ اِنْ شَآءَ اللہ کئی گنا زیادہ اجر و ثواب کا مستحق بنا دےگا۔ لہٰذاپکی  نیت کیجئے کہ ہم رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھیں گے۔ اِنْ شَآءَ اللہ

یاد رکھئے! رمضان کے روزے رکھنا فرض ہے اور اس کا ایک مقصد بھی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآنِ پاک میں اِرْشاد فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)

(پ۲ ، البقرہ : ۱۸۳)

ترجَمۂ کنز الایمان : اے ایمان والوتم پر روزے فرض کئے گئے  جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔

تفسیر صِرَاطُ الْجِنَان میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھا ہے : روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے ، جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔ (صراط الجنان ، ۱ / ۲۹۲)