Book Name:Jahannam Ki Sazaaen

اے کاش کہ ہماری بھی نگاہِ عبرت بیدار ہوجائے، ہمارا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ ہم ان کاموں سے بھی عبرت نہیں پکڑتے جو عبرت کی ہی جگہیں ہوتی ہیں۔ جی ہاں! آئے دن مرنے والوں کے اعلانات سُنتے ہیں،غُسلِ میّت بھی دیتے ہیں،جنازوں میں شرکت کرکے بسااوقات میّت کو کندھا بھی دیتے ہیں ،میت کواپنے ہاتھوں سے قبر میں بھی اُتارتے ہیں،مرنے والے کو منوں مٹی تلے دفن کرکے اپنے ہاتھوں سے مٹی بھی ڈالتے ہیں۔مگران عبرت انگیر لمحات سے عبرت حاصل نہیں ہوتی، اب جنازوں میں بھی بعض نادان لوگ ہنسی مذاق میں لگے ہوتے ہیں تو بعض موبائل پر ٹائم پاس((Time pass کر رہے ہوتے ہیں، کچھ اپنے کاروباری معاملات پر بحث کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ موقع غنیمت جان کر خاندانی مسائل میں اُلجھے ہوتے ہیں۔کوئی سیاست پرتبصرے کررہاہوتاہے توکوئی کرکٹ میچ پرباتیں کررہاہوتاہے۔

پہلے کے لوگوں کی جنازوں میں کیا کیفیت ہوتی تھی۔ آئیے! اس کی چند روایتیں سنتے ہیں:

1۔ صحابیِ رسول، حضرت سیِّدُناابو ہریرہرَضِیَ اللہُ عَنْہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب کوئی جنا زہ دیکھتے توفرماتے:جاؤہم تمہارے پیچھے آرہے ہیں۔(احیاء العلوم، ۵/۵۸۴)

حضرت سیِّدُنااعمشرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ہم جنازوں میں شریک ہو تے تھے مگر مجمع میں ہرشخص کے رنج وغم کی تصویر نظر آنے کے سبب ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ کس سے تعزیت کریں۔(احیاء العلوم، ۵/۵۸۵)

حضرت سیِّدُناثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ہم جنازوں میں شرکت کیاکرتےاور ہرشخص کو چادر سےاپنا سر ڈھانپے روتا ہو ا دیکھا کرتے تھے۔(احیاء العلوم، ۵/۵۸۵)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبیب!                                       صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد