Book Name:Jahannam Ki Sazaaen
ہوئے مارے خوف کے بے ہوش ہوجاتے، لذیذ کھانے سے وہ اس لیے لطف اندوز نہ ہو سکتے تھے کہ انہیں جہنم میں کھلائے جانے والے کھانے یاد آتے، اے کاش کہ ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے بن جائیں۔ ہمیں بھی ان جیسی نگاہِ عبرت نصیب ہوجائے۔
افسوس! صد افسوس!ہماری غفلت اور بے فکری تو اس قدر بڑھ چکی ہے،وہ کام جو واضح طور پر آخرت کی یاد دلاتے ہیں ان سے بھی ہم عبرت نہیں پکڑتے۔ جبکہ ہمارے بزرگوں کا حال یہ تھا کہ ہر انوکھی چیز انہیں جہنم کی یاد کی طرف لے جاتی۔ آئیے اسی بارے میں ایک اور حکایت سنتے ہیں:
چنانچہ حضرت سیِّدُنامَسْمَع بن عاصم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا عبدالعزیز بن سلمان، حضرت سیِّدُنا کِلاب اور حضرت سیِّدُنا سلمان اَعْرج رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے کسی ساحل (سمندر کے کنارے)پر رات گزاری، تھوڑی دیر میں اچانک حضرت سیِّدُنا کِلاب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ رونے لگے، وہ اتنا روئے اتنا روئے کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں ان کی موت واقع نہ ہو جائے۔ پھر ان کے رونے کی وجہ سے حضرت سیِّدُنا عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی رونے لگے، تھوڑی ہی دیر میں حضرت سیِّدُنا سلمان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی ان دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے لگے۔ حضرت مَسْمَع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتےہیں : ان تینوں کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگا۔ لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ تینوں کیوں رو رہے ہیں۔ پھر بعد میں مَیں نے حضرت سیِّدُنا عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا: اے ابو محمد!اُس رات آپ کس وجہ سے روئے تھے؟انہوں نے فرمایا: خدا کی قسم! جب میں نے سمندر کی موجیں دیکھیں اور ان کا شور سُنا تو مجھے جہنم کی آگ اور اس کی آواز یاد آگئی جس کے سبب میں رونے