Book Name:Nojawanane Karbala Ka Zikre Khair

وہ کیا مقام ہے جس تک کم لوگ ہی پہنچتے ہیں؟ فرمایا:

مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ (پارہ:2،البقرۃ:207)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:(کوئی وہ ہے) جو اپنی جا ن بیچ دیتا ہے۔

یعنی وہ اُونچا مقام کیا ہے؟ اپنی جان کو بیچ دینا۔ ویسے اپنی جان ہر کوئی بیچتا ہے، اس دُنیا میں بڑی سے بڑی، چھوٹی سے چھوٹی کوئی کامیابی پانی ہو بلکہ فضول سے فضول تَرِین بھی کوئی کام کرنا ہو، اس کی بہت بڑی قیمت چُکانی پڑتی ہے، یہاں فارِغ بیٹھنا بھی مُفْت نہیں ہوتا، اُس کے لیے بھی انمول تَرِین چیز یعنی اپنی سانسیں لگانی پڑتی ہیں۔ یُوں اپنی جان تو ہر کوئی بیچتا ہے، یعنی اپنی سانسیں ہر کوئی خرچ کرتا ہے، کوئی دُنیا کمانے کے لیے، کوئی دُنیا بنانے کے لیے، کوئی عہدہ و منصب کے لیے، کوئی مال و دولت کے لیے اور کوئی محض فضول میں، اپنی سانسیں تو ہر کوئی خرچ کر رہا ہے۔ یہ جو تھوڑے ہیں، جو اپنی جانیں بیچتے ہیں، یہ کس چیز کے بدلے اپنی جانیں بیچتے ہیں؟ فرمایا:

ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِؕ- (پارہ:2،البقرۃ:207)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے۔

یہ اپنی جانیں بیچ دیتے ہیں، مقصد کیا ہوتا ہے؟ اللہ پاک کو راضِی کرنا۔

وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ(۲۰۷) (پارہ:2،البقرۃ:207)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اور اللہ بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

*امامِ عالی مقام، امام حُسَین  رَضِیَ اللہُ عنہ   کا وِیژَن، سوچ اور مقصد جو اس پُورے واقعے کے پیچھے کام کر رہا تھا، مولانا حَسَن رضا خان صاحِب  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے ایک شعر میں