Book Name:Peerane Peer ki Piyari Adain
پاک رحمۃُ اللہ علیہ کا بڑا دِیوانہ تھا، بہت عقیدت رکھتا تھا، اس نے دِل میں پکّا عزم کر رکھا تھا کہ میں مرید بنوں گا تو بَس غوثِ پاک رحمۃُ اللہ علیہ کا ہی بنوں گا، آپ کے ہاتھ مبارَک پر بیعت کے لیے بغداد جانا بھی چاہتا تھا مگر اس کی قسمت کہ بغداد حاضِری نصیب نہیں ہو رہی تھی۔
یُوں ارادے باندھتے باندھتے 40 سال گزر گئے۔ آخر ایک بار ہمّت کر کے بغداد شریف پہنچ ہی گیا۔ جب یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ حُضُور غوثِ پاک رحمۃُ اللہ علیہ تو دُنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔
اللہ اکبر ! سالوں کی خواہش آج پُوری ہی ہوئی تو مَحْبُوب پردے میں تشریف لے گئے۔ اُس کے پیروں نیچے سے تو گویا زمین ہی نکل گئی، بہت صدمہ ہوا۔ خیر! مزار شریف پر حاضِری ہوئی، بہت ادب کے ساتھ اس نے غوثِ پاک رحمۃُ اللہ علیہ کے مزارِ پاک کی زیارت کا شرف پایا، جونہی مزارِ پاک پر حاضِر ہوا، اس پر کرم ہو گیا، وہی غوثِ پاک رحمۃُ اللہ علیہ جن کی محبّت کے چراغ سالوں سے دِل میں جلائے تھے، اُن غریب نواز، کرم شعار غوثِ پاک رحمۃُ اللہ علیہ نے جاگتی آنکھوں سے اپنے غُلام کو دیدار بھی عطا کیا، اپنا مرید بھی بنایا اور ایک ہی نظرِ کریم سے دَرْجۂ اِنَابت تک پہنچا دیا۔ ([1])
سب سے کٹ کر اللہ پاک کی طرف لَو لگا لینے کو اِنَابَت کہتے ہیں۔یہ راہِ تَصَوُّف کا ایک اُونچا درجہ ہے۔
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو اِبْنِ اَبیِ القَاسِم ہے کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا([2])
وضاحت:پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم اللہ پاک کی عطا سے مالک و مختار اور اس کی نعمتیں تقسیم فرمانے والےہیں ، اے میرے پیر و مرشِد! آپ اُن کے نورِ نظر ، جگر پارے ہیں تو اُن کے