Book Name:Naikiyon Me Hissa Milaiye
خَاطِر اُس اونٹ کوچھوڑدیا تھا، اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہ تھا۔ اَبُو ذَر غفاری رَضِیَ اللہ عنہ نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اپنی ضرورت کا دن نہ بتا دوں؟سُنو!میری ضرورت اور حاجت کا تو وہ دن ہےجس دن مجھے قبر کے گڑھے میں اکیلادفن کر دیا جائے گا،باقی رہا مال،تو اس کے 3حصے دار ہیں: (1): تقدیر؛ جو مال لے جانے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتی (2): وارث؛ جو تیرے مرنے کا مُنْتَظِر رہتا ہے کہ کب تُو مرے اور وہ تیرے مال پر قبضہ کرلے (3): تیسرا حصّے دار تُو خود ہے(جب تقدیر اور وَارث مال لینے کے مُعاملے میں کوئی رِعایت نہیں کرتے تو تُواپنا حصّہ لینے میں کیوں پیچھے رہتاہے؟ جتنا بن پڑے عمدہ سے عمدہ ترین مال راہِ خدمیں دے کر اپنی آخرت کے لیے جمع کر لے۔) یہ فرما کرآپ رَضِیَ اللہ عنہ نے چوتھے پارے کی ابتدائی آیتِ مبارکہ کی تلاوت کی:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ (پارہ:4، آلِ عمران:92)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔
اورفرمایا کہ اِسی لیے جو مال مجھے سب سے زیادہ پسند ہوتاہے اُس کو را ہِ خدا میں خرچ کرکے اپنی آخرت کے لیے ذخیرہ کرتا ہوں۔([1])
اے عاشقانِ رسول! اَبُو ذَر غفاری رَضِیَ اللہ عنہ کی کتنی زبر د ست مدنی سوچ تھی کہ جو مال سب سے زیادہ پسند ہوتا اُسے راہِ خدا میں خرچ کر کے اپنی آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا کرتے تھے۔اے کاش!ہماری آنکھیں کُھل جائیں اور ہم بھی اس آیتِ مبارکہ :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ (پارہ:4، آلِ عمران:92)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکو گے