Book Name:Naikiyon Me Hissa Milaiye
کہ جیسے ہی بو ڑ ھے والدین دم توڑیں گے، ہم اِن کے مال و اَسباب پر قبضہ کر لیں گے۔ بندہ ساری زندگی مال جمع کرتا رہتا ہے لیکن اُسے پتا نہیں ہوتا کہ اُس کے اِنتقال کے بعد وَارِثین اُس کے مال کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ بعض اوقات تو وَارِثین میّت کے مال سے ناجائز کاروبار بھی شروع کر دیتے ہیں۔
اَبُو ذَر غفاری رَضِیَ اللہ عنہ نے اپنی خدمت میں رہنے والے شخص سے تیسری بات یہ اِرشاد فرمائی کہ اپنے مال کا تیسرا حصّے دار تُو خود ہے۔ (یعنی جب تقدیر اور وَارث مال لینے کے مُعامَلے میں کوئی رِعایت نہیں کرتے تو تُواپنا حصّہ لینے میں کیوں پیچھے رہتاہے؟ جتنا بن پڑے عمدہ سے عمدہ ترین مال راہِ خدا میں دے کر اپنی آخرت کیلیے جمع کر لے۔)
دِین کی مالِی خِدْمت ضرور کیجیے !
پارہ 2، سُوْرَۂ بَقَرَہ، آیت:245 میں ارشاد ہوتا ہے:
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: ہے کوئی جو اللہ کواچھا قرض دے تو اللہ اس کے لیے اس قرض کو بہت گنا بڑھا دے
سُبْحٰنَ اللہ! کیسی پیاری بات ہے! مال دیا ہوا کس کا ہے؟ اللہ پاک کا۔سرکار غوث اعظم رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اَنْتُمْ وُکَلَاءُ عَلٰی ہٰذِہِ الْاَمْوَال تم اس مال کے وکیل ہو۔([1])
مثال کے طور پر ہم کسی کو 200 روپیہ دیں اور کہیں کہ بازار سے فلاں چیز لے آؤ! تو وہ