آخر درست کیا ہے؟
آواگون اسلام کی نظرمیں (قسط : 04)
* مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021
دعویٰ : کسی شخص نے آواگون کے درست ہونے پر یہ دلیل دی کہ ’’دنیا میں ہندو اور بودھ دونوں مذاہب کے لوگ آواگون پر یقین رکھتے ہیں ، ان کی کل آبادی دنیا کا بیس فیصد بنتا ہے ، ان میں پروفیسرز بھی ہوں گے ، سائنس دان بھی ، کھرب پتی بزنس مین بھی اور نوبیل انعام یافتہ مشاہیر بھی۔ کیا دنیا کی یہ بیس فیصد آبادی پاگل اور بے وقوف ہے؟‘‘
جواب : اس دلیل کا جواب ویسے تو ایک ناقل نے خود ہی دیا ہے کہ “ دنیا کے ڈیڑھ ارب ہندو گائے کے پیشاب کو بھی مقدس سمجھتے ہیں ، کیا ہمیں یہ بھی پینا شروع کر دینا چاہیے؟‘‘یا وہ بتوں کو خدا مانتے ہیں تو ہم بھی معاذاللہ بتوں کو خدا مان لیں؟ ہرگز نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیاحقیقت میں بھی بیس فیصد آبادی یعنی تقریباً ڈیڑھ ارب لوگ تحقیق کرکے آواگون کودرست مانتے ہیں یا بس پیدائشی ہندو ہونے کی وجہ سے مانتے ہیں؟ یقیناً سب نے بلکہ کسی نے بھی حقیقی تحقیق نہیں کی ہوئی۔ تیسری بات ، تناسخ (آواگون) کی قائل آبادی کے سائنسدان ، نوبیل انعام والے حقیقت میں آواگون مانتے ہیں یامحض خواہ مخواہ ہی گنتی میں شامل کردیا؟ یہ بات خود تحقیق طلب ہے۔ تحقیق سے یہی پتا چلے گا کہ پڑھے لکھے لوگ یہ عقیدہ نہیں مانتے ہوں گے اور اگر کوئی مانتا بھی ہوا تو صرف سنی سنائی کی وجہ سے ، نہ یہ کہ وہ اِس فیلڈ کا سائنس دان ہے یا اس فیلڈ میں اسے نوبیل انعام ملا ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شعبے مثلاً فلکیات کا سائنسدان ہو یا کسی کوکسی شعبے مثلاً ادب میں نوبیل انعام ملا ہو تو علم کے بقیہ میدانوں میں اس کی حیثیت ایک عامی جیسی ہی رہے گی۔ باقی دنیا جہان کی چیزوں میں اس کی بات تھوڑی معتبر ہوجائے گی! چوتھی بات یہ کہ اگر واقعی دنیا کی بیس فیصد آبادی کو آواگون کا قائل مان ہی لیں اور یہ کہیں کہ آواگون اتنی بڑی آبادی کے ماننے کی وجہ سے درست ہے تو جواب یہ ہے کہ جب بیس فیصد آبادی آواگون ماننے والوں کی شمار ہوئی تو دنیا کی اسی فیصد آبادی نہ ماننے والوں کی بھی تو ہوئی ، اب بیس فیصد میں ایسی کیا فضیلت ہےکہ ان کی بات تو مان لی جائے اور اسی فیصد کی نہ مانیں۔
دعویٰ : فلسطین ، لبنان ، شام اور اردن میں رہنے والے اور خود کو مسلمان کہنے والے بھی دوسرے جنم پر یقین رکھتے ہیں۔
جواب : اگر ایسا ہے تو انہیں توبہ کروانا ضروری ہے کہ اسلام میں یہ عقیدہ کفریہ ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ختمِ نبوت کا انکار درست ہے کیونکہ قادیانی بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں اور وہ ختمِ نبوت کے منکر ہیں۔ تو اس کاجواب یہی ہے کہ قادیانیوں کے انکار سے ختمِ نبوت کا عقیدہ غلط نہیں ہوجائے گا بلکہ انہی کو توبہ کرنے کا کہا جائے گا۔
دعویٰ : ایک خودساختہ عالم ٹائپ کے شخص نے کئی جنموں کے صحیح ہونے پر بہت ہی عجیب دلیل دی ، وہ یہ کہ’’ ہم مسلمان موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان رکھتے ہیں یعنی ہم فوت ہوں گے ، پھر روز حشر ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ اٹھا کر ہم سے حساب لے گا۔ دوسرے جنم کو ماننے والے بھی یہی کہتے ہیں ، بس تھوڑا سا تشریح کا فرق ہے۔ ‘‘
جواب : یہ تھوڑا سا فرق نہیں بلکہ کفر و اسلام کا فرق ہے۔ یہ ایسا غیر معقول دعویٰ ہے جیسے کوئی مشرک کہے کہ ہم میں اور توحید کے ماننے والوں میں کوئی فرق نہیں ، بس یہ ہے کہ وہ بھی اللہ کو معبود مانتے ہیں اور ہم ذرا دو چار کا ساتھ میں اضافہ کردیتے ہیں۔ یا قادیانی کہے کہ ہم بھی ختمِ نبوت کو مانتے ہیں لیکن بس ذرا چھوٹی موٹی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کےلئے بھی مان لیتے ہیں۔ یہ تھوڑا سا فرق نہیں ، زمین و آسمان کا فرق ہے۔
رنگ برنگے مشاہدات میں اصل مسئلہ :
اب چلتے ہیں تھوڑا سا اسباب و وجوہ کی طرف کہ جو لوگ اپنے کچھ مشاہدات کی وجہ سے آواگون مانتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ انسانی دماغ کی گہرائی ، وسعت اور صلاحیت اس قدر پیچیدہ ہے کہ آج تک اسے پوری طرح سمجھنے کا کوئی دعویٰ نہیں کرسکا اور نہ ہی کرسکتا ہے۔ خیال کی قوت ، وجدان کی صلاحیت ، تصور کی طاقت اور تخیل کی پرواز اس قدر مبہم اور غیرمعلوم ہے کہ انکشافات کی کوئی حد ہی سمجھ نہیں آتی اور مختلف لوگوں کے انکشافات ایک دوسرے سے بالکل متضاد نظر آتے ہیں ، کوئی سات جنم مانتا ہے ، تو کوئی چھیاسی جنموں کی کہانی سنا رہا ہے اور کوئی ہزاروں جنموں کی بات کرتا ہے اور کوئی اس سے بھی پہلے کی باتیں کررہا ہے ، الغرض ایک عجیب و غریب سی کہانی بنی ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں معقول اور اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جو انکشاف خارجی حقائق سے ثابت ہوجائے یا وحیِ الٰہی اس کی تائید کرے وہ تو تسلیم کیا جائے گا جبکہ جو انکشاف خداوند علیم و خبیر کے بتانے کے برخلاف ہوگا وہ کلی طور پر باطل اور محض وہم و خیال ہوگا اور جس کے بارے میں وحیِ الٰہی اور خارجی حقائق خاموش ہوں وہاں سکوت اختیار کیا جائے۔ اس صاف ، واضح قطعی اصول کے بعد اب ذہن کی وسعتِ تخیل کی ایک مثال عرض کرتا ہوں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر اعتبار کرنا نہایت ہی مشکل ہے اور اس کے بعد اس پر کچھ تبصرہ کروں گا۔ ستر کی دہائی کے ایک معروف مابعدالطبیعیاتی علوم کے ماہرنے اپنی کتاب میں مختلف افراد کے مکاشفات ، محسوسات اور خیالات جمع کئے ہیں ، اُن کے الفاظ میں دماغ کی کرشمہ سازیوں کی ایک داستان ملاحظہ کیجئے ، لکھتے ہیں : ’’مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے مختار علی ’’ماہ بینی کے مشاہدہ ٔباطنی‘‘ (آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرنا کہ چاند ان کی نگاہِ باطن کے سامنے چمک رہا ہے) کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ : میں نے چاند کے مشاہدۂ باطنی کے زمانے میں بارہا اپنے آپ کو چاند پر یا چاند میں پایا ہے۔ پانچ مئی انیس سو اڑسٹھ (۱۹۶۸) کے تجربے کو میں بہت اہمیت دیتا ہوں۔ میں نے اس تجربے کے تأثرات اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیے تھے۔ یہ تأثرات بیش قیمت ہیں جوں ہی سانس کی مشق کے بعد میں نے آنکھیں بند کر کے چاند کا تصور کرنا شروع کیا۔ یہ محسوس ہوا کہ ایک نورانی جسم میرے خاکی وجود سے نکل کر چاند کی طرف پرواز کر گیا۔ لطف یہ ہے کہ میں بیک وقت اپنے دونوں جسموں (نورانی اور خاکی) میں زندہ اورباشعور تھا۔ جب میرا نورانی جسم جسے مابعد النفسیات میں جسم مثالی کہتے ہیں ، اپا لو ہشتم کے خلابازوں کی طرح چاند کی طرف پرواز کر رہا تھا تو مجھے اس خیالی فضائی پرواز کی تمام کیفیتوں کا پورا پورا احساس تھا اور عین اسی وقت یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ میں زمین پر اپنے پیکر خاکی میں موجود ہوں اور میرا پیکر خاکی کوٹھے کی چھت پر دھرا ہوا ہے۔ آخر میں چاند کی سطح پر اُتر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ چاند پر 280 ڈگری فارن ہائٹ موسم رہتا ہے لیکن میں نے یا میرے جسم نورانی نے چاند پر کوئی موسمی تبدیلی محسوس نہیں کی۔ ۔ ۔ ۔ میں نے وہاں ایسا بہشتی سکون محسوس کیا کہ کرۂ ارض پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ البتہ میں نے چاند کی سطح پر کوئی زندہ وجود نہیں دیکھا۔ ‘‘
ان مشاہدات کے بیان کے بعد ماہرِ علوم مابعد الطبیعات لکھتے ہیں : یہ تجربات مختار علی کے ہیں۔ ان تجربات کی اصلیت اور حقیقت کیا ہے؟ یہ بڑا الجھا ہوا مسئلہ ہے۔ مختصر یہ کہ محویت اور بے خوابی کے عالم میں لاشعور ابھرتا ہے اور لاشعور کے نقوش خطوط ، تصاویر اور مناظر ، باطنی نگاہ کے سامنے گزرتے ہیں۔ مختار علی نے جو کچھ دیکھا ، وہ اپنے اندر دیکھا ، اپنے اندر محسوس کیا ، انسانی نفس کائنات کا آئینہ منظر نما یا ٹیلی سکوپ ہے۔ ایک چاند کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ مریخ عطارد ، زہرہ ، مشتری ، سورج اور سورج کے نظام سے پَرے جو لاکھوں کروڑوں نظام شمسی اور اربوں کہکشانی حلقے موجود ہیں ، اُن سب کی تصویریں ، سب کے عکس ، سب کی پرچھائیاں ، سب کے مناظر ، ہمارے نفس پر ہر لمحہ اپنا پَرتَو اور اپنا عکس ڈالتے رہتے ہیں۔ باہر جو کچھ نظر آتا ہے ، زمین سے سورج اور سورج سے زمین تک ، وہ سب کا سب ہمارے نفس کے اندر جلوہ گر ہے۔ (توجہات ، ص 55 ، 56)
یہ صرف ایک واقعہ یا مشاہدہ نقل کیا ہے۔ بیسیوں مصنفین نے ایسے ہزاروں واقعات اپنی کتابوں میں نقل کئے ہیں جو بہت بڑی تعداد میں ایک دوسرے سے بالکل متضاد اور مختلف ہیں۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اکثر کا حقیقت یا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ ذہنی تصور ، دماغی قوت اور خیالات کے تانے بانے سے مرکب صرف سوچیں ہوتی ہیں ، ہاں اولیاء کرام کا معاملہ اس سے جدا ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments