غیر مسلموں کی  ترقی  اور مرعوب ذہنوں  کا اِحساسِ کمتری

آخر درست کیا ہے؟

غیر مسلموں کی ترقی اور مرعوب ذہنوں کا اِحساسِ کمتری

*مفتی محمد قاسم عطاری

(نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی)

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2023ء

یہ حقیقت ہے کہ فی زمانہ ”غیر مسلم“ فانی دنیا کی دولت و ثروت، سائنسی مہارت، تکنیکی جدت، سہولیات کی کثرت، ایجادات کی بہتات، مال و زَر کی فراوانی اور عیش و عِشرت میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہیں، مگر بہت سے لوگ غیرمسلموں کی اس قدر ترقی اور مختلف امور میں سبقت دیکھ کر اِسلام اور اہلِ اسلام پر زبان دراز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بے بنیاد شکووں اور شکایتوں کی عمارت کھڑی کرتے اور شدید احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں بلکہ کچھ بے باک تو اسلام ہی کو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے دقیانوسی اسلام، قبائلی اسلام، پرانے زمانے کا اسلام وغیرہا الفاظ استعمال کرکے اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ اخبار میں لکھنے والے ذہنی مرعوب لوگوں کی تحریروں سے ظاہر ہے۔ حالانکہ غیرمسلموں کی یہ دنیاوی، مالی ترقی اور عیش و عشرت کوئی نئی چیز نہیں، بلکہ گزشتہ زمانوں میں بھی کافروں کے پاس بہت مال و دولت تھا اور وہ اس پر اِتراتے اور مسلمانوں کو غربت کے طعنے دیتے تھے چنانچہ حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم کے مال دار کفار ایسے ہی طعنے دیا کرتے تھے حالانکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ان کافروں کے لئے مہلت ہوتا تھا چنانچہ قرآنِ پاک میں مہلت اور گرفت کے اس پورے سلسلے کو بیان کیا گیا کہ جب بدکرداروں کی بداعمالی اور سرکشی کے باوجود خدا اُن پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھولتا اور اُنہیں صحت و سلامتی عطا کرتا ہے، رزق میں وسعت اور زندگی میں عیش عطا کرتا ہے اور وہ نافرمان لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم حقیقتاً اِن خوشحالیوں کے حق دار ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی گرفت کرکے عذاب میں مبتلا فرما دیتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوا: تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑاتے، لیکن ان کے تو دل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے آراستہ کردئیے تھے۔ پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پر خوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا پس اب وہ مایوس ہیں۔(پ7، الانعام:43، 44) لہٰذا کافروں کی ترقیاں دیکھ کر خود کو ”کَوسنا پیٹنا“ اچھا نہیں۔

غیر مسلموں کی دنیاوی خوشحالی اور مسلمانوں کی مالی حالت کے خوشگوار نہ ہونے کا یہ سلسلہ زمانۂ رسالت میں بھی جاری رہا اور اللہ تعالیٰ نے اُس وقت بھی اہلِ اسلام کو غیروں کی ترقی پر متعجب ہونے سے منع کرکے مسلمانوں کو آخرت کے اجر و ثواب کی بشارت دی، فرمایا: اور اے سننے والے! ہم نے مخلوق کے مختلف گروہوں کو دنیا کی زندگی کی جو تر و تازگی فائدہ اٹھانے کیلئے دی ہے(وہ اس لئے ہے) تاکہ ہم انہیں اس بارے میں آزمائیں تو اس (دنیا) کی طرف تو اپنی آنکھیں نہ پھیلا اور تیرے رب کا رزق سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔(پ16، طٰہ:131) مراد یہ ہے ہم نے غیروں کو دنیاوی عیش و عشرت سے مالا مال اس لیے کیا ہے تاکہ ہم انہیں اِس کے سبب آزمائیں، لہٰذا تم اسے تعجب اور حیرانی سے مت دیکھو کیونکہ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت کابہترین، ہمیشہ باقی رہنے والا رزق تیار کررکھا ہے۔

جو مغرب زدہ ذہنیت کے لوگ غیروں سے مرعوب ہو کر مسلمانوں پر بے جا اعتراض کرتے اور اسلام پر طعنہ زَنِی کرتے ہیں، اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیوی خوشحالی، مال و دولت اور سہولیات کی کثرت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول و محبوب ہونے کی علامت نہیں، ورنہ قارون بہت بڑا مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہوتا، جبکہ وہ مردود تھا اور صرف وہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مبین میں بہت سی ایسی کافر قوموں کا ذکر فرمایا ہے جنہیں لاجواب ترقی اور کثیر و وافر دولت سے نوازا گیا۔ قرآن مجید میں اُن کے کھیتوں میں پیداوار کی کثرت، باغات میں شادابی، رہائش گاہوں کی بلندی اور عالی شان محلات کی منظر کشی کی گئی، مگر فرمایا گیا کہ اس خوشحالی و فراوانی کے باوجود جب اُنہوں نے خدا کو ناراض کیا اور اس کے احکام کے مقابلے میں سرکشی کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے سب دَھن دولت سمیت اُنہیں ہلاک کر دیا، چنانچہ کفارِ مکہ کو ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے یوں تنبیہ فرمائی: کیا انہوں نے نہیں د یکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا، انہیں ہم نے زمین میں وہ قوت و طاقت عطا فرمائی تھی جو تمہیں نہیں دی اور ہم نے ان پر موسلا دھار بارش بھیجی اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں پھر ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں۔ (پ7، الانعام: 6) اس آیت میں ان لوگوں کے لئے درس ہے جو کفار کی دنیوی ترقی، سائنسی مہارت وغیرہا دیکھ کر انہیں بارگاہِ خدا میں مقبول جبکہ مسلمانوں کو مردود سمجھتے ہیں پھر مسلمانوں کو اخلاق و کردار میں کفار کی تقلید کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ دنیوی کامیابی مقبولیت نہیں، مہلت ہے جیسا کہ فرمایا: اور میں انہیں ڈھیل دوں گا بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے۔(پ9، الاعراف:183) اور ایک جگہ فرمایا: اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں کہ ہم انہیں جو مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے، ہم تو صرف اس لئے انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ (پ4، اٰل عمرٰن:178) لہٰذا نام نہاد دانشور، مسلمانوں کو غیرمسلموں کی اندھی تقلید کا مشورہ نہ ہی ارشاد فرمائیں اور وہ اپنی قارونی سوچ اپنے پاس ہی رکھیں۔

ایک اور آیت میں کافروں کی ترقی کے پیچھے مہلت کے علاوہ ایک اور سبب بھی بیان فرمایا ہے چنانچہ فرمایا:تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں، اللہ یہی چاہتا ہے کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے اور کفر کی حالت میں اِن کی روح نکلے۔ (پ10، التوبۃ:55) یعنی تم کافروں کے مال و اولاد کی نعمتوں پر یہ سوچ کر حیرت نہ کرو کہ جب یہ خدا کی بارگاہ میں مردود ہیں تو انہیں اتنا مال کیوں ملا ؟ بات یہ ہے کہ ایمان سے محروم لوگ آخرت میں تو ویسے ہی راحت و آرام سے محروم رہیں گے، جبکہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کے حصول و حفاظت کی فکر ڈال کر ان سے راحت و آرام دور کردیا ہے کہ محنت سے جمع کریں، کھانے پینے اور دیگر دنیا جہان کے بکھیڑے سدھارنے میں پریشانیوں کا سامنا کریں، پھر مشقت سے اس کی حفاظت کریں اور حسرت سے چھوڑ کر مر جائیں، پھر موت کے وقت اور اس کے بعد تو انہیں شدید عذاب کا شکار ہونا ہی ہے۔ گویا کافروں کے ساتھ دو چیزیں ہیں، ایک یہ کہ آخرت میں راحت سے بالکل محروم رہیں گے اور دوسری یہ کہ دنیا میں بھی جو نعمتیں ہیں ان کے کمانے، سنبھالنے میں مشقت اور چھوڑ کر جانے میں حسرت ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مسلمان کے لئے آخرت کا معاملہ تو نہایت ہی اعلیٰ ہے کہ ہمیشہ کی جنت ہے اور دنیا میں بھی کلی طور پر مال و دولت سے محروم نہیں بلکہ بہت مرتبہ مسلمانوں کے پاس کافروں سے زیادہ مال و دولت ہوتی ہے، پھر جہاں تک مسلمان کو اس مال کے کمانے، سنبھالنے میں مشقت کا سامنا ہے تو اس میں بھی اس کے لئے خیر ہے کہ اچھی نیت سے کمانے، سنبھالنے کی کوشش کرے تو اس محنت پر بھی ثواب اور اس دوران میں ہونے والی مشقت پر صبر کرے تو اس پر بھی ثواب ہے اور نیک وارثوں کے لئے چھوڑ کر جائے اور صدقہ جاریہ کرکے جائے تو بھی ثواب ہے۔ گویا مجموعی طور پر کافر خسارے ہی خسارے میں ہے اور مسلمان فائدے ہی فائدے میں۔

کافروں کے مال و دولت کی کثرت سے دھوکا نہ کھانے کا حکم اور بھی کئی جگہوں پر دیا گیا ہے، ایک جگہ فرمایا: اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا ہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔(یہ تو زندگی گزارنے کا) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اوروہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔(پ4، اٰل عمرٰن:196، 197) مزید ایک مقام پر ارشاد فرمایا:اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں (خوشحالی سے) چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔(پ24، غافر:4) کیونکہ یہ سب آسائشیں، ترقیاں اور مال و دولت صرف اُن کی دنیا کا اثاثہ ہے، آخرت میں ذلت کا عذاب اُن کا مقدر ہے، چنانچہ فرمایا: اور جس دن کافر آگ پر پیش کیے جائیں گے (تو کہا جائے گا) تم اپنے حصے کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھاچکے تو آج تمہیں ذلت کے عذاب کابدلہ دیا جائے گا کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور اس لیے کہ تم نافرمانی کرتے تھے۔(پ26، الاحقاف:20)

لہٰذا غیر مسلم اقوام کی معاشی، سائنسی یا دنیاوی ترقی دیکھ کر کبھی بھی اسلام کے بارے میں شک و شبہ کا شکار نہ ہوں اور جو لوگ ایسی دلیلوں کے ذریعے وسوسے ڈالیں، ان کی بات سننے سے گریز کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رِضا کا طالِب بنائے۔ آمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی)


Share

Articles

Comments


Security Code