فریاد
کیا ہم نیک ہیں؟
دعوتِ سلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021
حضرت سیِّدُنا بشر حافی رحمۃُ اللہِ علیہ ایک شخص سے ملے جو نشے میں دُھت (Drunk) تھا۔ وہ شخص آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے ہاتھ چومنے لگا اور آپ کو “ اے میرے سردار!اے ابونصر! “ کہنے لگا۔ آپ نے اسے ایسا کرنے سے نہ روکا۔ جب وہ چلا گیا تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں اور فرمانے لگے : ایک شخص دوسرے کو نیک گمان کرکے اس سے مَحبّت کرتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ محبت کرنے والا نجات پاجائے لیکن اس کے محبوب کا نہ جانے کیا انجام ہو۔ [1] اےعاشقانِ رسول !بزرگانِ دین کےاقوال وافعال میں ہمارے لئے سیکھنے کا بہت کچھ سامان ہوتاہے ، حضرت سیدنا بشر حافی رحمۃُ اللہِ علیہ اللہ پاک کےنیک بندے اور اس کے ولیِّ کامل تھے ، انہوں نےجوکچھ فرمایاوہ ان کی عاجزی تھی ، مگر ہمیں اس بات پر ضرور غورکرناچاہئے کہ نیکوں کی وضع اختیار کرنے اور بظاہر نیک نظرآنےکےسبب بسااوقات لوگ ہمارے ساتھ بھی محبت کےمختلف انداز اپناتےہیں ، ہمارے ہاتھ چومتے ، ہمارے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے اور کبھی ہمارے پیچھے ہاتھ باندھ کرچل رہے ہوتے ہیں ، ازخودہی ہمارےکسی کام کو کرنے یا ہمارےہی سونپے ہوئےکام کو کرنے میں اپنے لئے سعادت تصوّر کرتے ہیں ، کئی لوگ ہمیں اپنی اشیا ءدوسروں کے مقابلےمیں سستے داموں میں بیچتے ہیں جبکہ کچھ دکاندار توہماری محبت میں پیسےنہ لینےکی ضدبھی کرتےہیں۔ مگر کبھی ہم نےیہ بھی سوچاکہ کیاہم واقعی نیک ہیں؟ کیا ہمارے دل واقعی خوفِ خدا اورعشقِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لبریز ہیں؟ کیاہم نے ظاہر کےساتھ ساتھ اپنے باطن کوبھی ستھرا کرلیا ہے؟ کیاہماری جَلوتوں کی طرح ہماری خَلْوتِیں بھی گناہوں کی گندگی سےپاک ہیں؟ ہماری حالت کہیں ایسی تو نہیں کہ ہمارےساتھ اچھاگمان رکھنےاور اپنی عقیدتوں کوہم سےوابستہ کرنے والے تو قیامت کےدن نجات حاصل کرلیں مگرہمارامعاملہ اس کے برعکس ہو؟کیونکہ جسے لوگ خوفِ خدا رکھنے والااور عبادت گزار سمجھیں اور حقیقت میں وہ ایسانہ ہو تو بزرگوں نے اسے منافقت کانام دیاہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا احمد بن محمد رحمۃُ اللہِ علیہ نےفرمایا : لوگوں کا تمہارے بارے میں خوفِ خدا سے ڈرنےیا رات میں عبادت کرنے کا گمان ہو تو ان کے حسنِ ظن پر پورے اترو۔ ایسے مت بننا کہ لوگ تمہیں نیک سمجھیں اور تمہارا معاملہ اس کے برعکس ہو کہ یہ نقصان و نِفاق ہے۔ [2] اور اگر اللہ پاک کے کرم سے ہم اپنے ظاہرکےساتھ ساتھ باطن کوبھی کسی حدتک ستھرا کرنے میں کامیاب ہوجائیں اورہم خودہی اپنے آپ کو نیک کہنےلگیں یاپھرلوگ ہی ہمیں نیک کہیں دونوں صورتیں ہی ہمارے لئے اُخْرَوِی طور پر خطرے کا باعث ہیں ، کیونکہ اس وقت شیطان ہمیں خودپسندی میں مبتلا کرسکتا ہے جوکہ باطنی خرابیوں میں سےایک خرابی اورگناہ ہے ، حضرت سیِّدُنا زید بن اَسْلَم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتےہیں : اپنے نفس کو نیکو کار نہ قرار دو یعنی یہ اعتقاد نہ رکھو کہ وہ نیک ہے۔ خودپسندی کے یہی معنیٰ ہیں کہ خود کو نیک سمجھا جائے۔ [3] حضرت سیِّدُنا وَہب بن منبہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : “ اَلْوَيْلُ لَكُمْ اِذَا سَمَّاكُمُ النَّاسُ الصَّالِحِينَ “ جب لوگ تمہیں نیک کہیں تو اس وقت تمہارے لئے ہلاکت ہے۔ [4] حضرتِ سیِّدُنا عُمَر بن ذر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : خداکی قسم! اگر میں جان لوں کہ میں بہت نیک ہوں تو میں اس وقت تک نہ ہنسوں جب تک یہ نہ جان لوں کہ میرے اعمال کی جزا کیا ہے؟[5]
ایک مدنی مذاکرےمیں میرےشیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے سوال ہوا : دل میں یہ وسوسہ آئے کہ ’’میں بہت نیک ہوں “ تو اِس وسوسے کو کیسے دُور کیا جائے؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا : ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھ لے اور وسوسے پر توجّہ نہ دے ، نہ ہی اُس پر دل جمائے۔ چونکہ وہ اِس وسوسے کو بُرا سمجھ رہا ہے اِس لئے اُس پر کچھ اِلزام نہیں ہے۔ [6]
اے عاشقانِ رسول! ہمیں اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہئے ، ابلیس بھی تو پہلے بہت مقرّب اور بڑے بلند درجات و مراتب سے سرفراز تھا ، چالیس ہزار سال تک جنّت کا خزانچی رہا ، 80ہزار سال تک فرشتوں کا ساتھی رہا ، 20ہزار سال تک فرشتوں کو وعظ سنا تا رہا ، 30ہزارسال تک مقربین کا سردار رہا ، ایک ہزار سال تک روحانیین کی سرداری کے منصب پر رہا ، چودہ ہزار سال تک عرش کا طواف کرتا رہا ، پہلے آسمان میں اس کا نام عابد ، دوسرے میں زاہد ، تیسرے میں عارف ، چوتھے میں ولی ، پانچویں میں تقی ، چھٹے میں خازن اور ساتویں آسمان میں اس کانام عزازیل تھا ، جبکہ لوحِ محفوظ میں اس کا نام ابلیس (یعنی سرکش ، نافرمان) لکھا ہوا تھا اور یہ اپنے انجام سے غافل اور خاتمہ سے بے خبر تھا۔ [7] جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے انکار کردیا اور حضرت آدم علیہ السّلام کی تحقیر اور اپنی بڑائی کا اظہار کر کے تکبر کیا ، اسی جرم کی سزا میں خداوند ِ عالَم نے اس کو مردود ِ بارگاہ کردیا اور اس کی ساری عبادتیں غارت و اکارت ہو گئیں۔
لہٰذا ہرگز اپنی عبادتوں اور نیکیوں پر گھمنڈ اور غرور نہیں کرنا چاہئے کیونکہ انجام کیا ہو گا اور خاتمہ کیسا ہو گا عام بندوں کو اس کی کوئی خبر نہیں اور نجات و فلاح کا دارومدار درحقیقت خاتمہ بالخیر پر ہی ہے ، بڑے سے بڑےعابدکا اگر خاتمہ ایمان پر نہ ہوا تو وہ جہنمی ہو گا اور بڑے سے بڑے گنہگارکااگر خاتمہ بالخیر ہو گیا تو وہ جنتی ہو گا۔ [8]
ہمیں نہیں معلوم کہ اس دنیا سے ہم اپنا ایمان سلامت لے کر جاسکیں گے یانہیں؟ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہماری قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا؟ ہم قبر میں آنے والے فرشتوں یعنی منکر نکیر کے سوالوں کے جوابات بھی دے سکیں گے یا نہیں؟ہمیں نہیں معلوم کہ کل بروزِ قیامت ہمارا نامۂ اعمال ہمیں دائیں ہاتھ میں دیا جائے گایا بائیں میں؟ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم پل صراط سے بخیریت گزر سکیں گے یا نہیں؟ ہمیں جنت نصیب ہوگی یا ہمارا ٹھکانہ جہنم ہوگا؟
لہٰذامیری تمام عاشقانِ رسول سےفریادہے!عیسوی سال 2021ء ختم ہونے کے قریب ہے ، اگر ہماری زندگی نے ساتھ دیا تو ہم نئے عیسوی سال میں داخل ہوجائیں گے۔ آئیے! اس موقع پر اپنے اعمال اور نیتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیجئے۔ لوگ ہمیں نیک کہیں یاہم لوگوں کونیک نظرآئیں ان نیتوں کے ساتھ نہیں بلکہ نیکی اور پرہیزگاری والےراستےکواللہ پاک کی رضا کیلئے اپنائے رکھئے ، اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبِیِّیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہو اَخلاق اچھا ہو کردار ستھرا مجھے متقی تو بنا یاالٰہی
[1] المستطرف ، 1 / 251
[2] الکواکب الدریۃ ، 2 / 34
[3] احیاء العلوم ، 2 / 52
[4] حلیۃ الاولیاء ، 4 / 69
[5] حلیۃ الاولیاء ، 5 / 146 ، 147
[6] مدنی مذاکرہ ، 10محرم شریف 1441ھ
[7] تفسیر صاوی ، 1 / 51 ، پ1 ، البقرۃ : 34 ، تفسیر جمل ، 1 / 60
[8] عجائب القرآن مع غرائب القرآن ، ص253ملخصاً
Comments