تفسیرِ قراٰن کریم

طیِّب اور خبیث برابر نہیں

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

( قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخ  َبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَ ) ترجَمۂ کنزُ العرفان : تم فرمادو کہ گندا اور پاکیزہ برابر نہیں ہیں اگرچہ گندے لوگوں  کی  کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے ، تو اے عقل والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (پ 7 ، المائدہ : 100)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  

تفسیر : آیت میں فرمایا گیا کہ حلال و حرام ، نیک و بَدْ ، مسلم و کافر ، طاعت و مَعْصِیَّت اور کھرے کھوٹے ایک درجے میں نہیں ہوسکتے ، بلکہ حرام کی جگہ حلال ، بَدْ کی جگہ نیک ، کافر کی جگہ مسلمان ، نافرمانی کی بجائے فرمانبرداری اور کھوٹے کی جگہ کھرےہی مقبول ہیں ، کیونکہ گندگی اور پاکیزگی ایک جیسی نہیں ہوسکتی اورپاک و ناپاک برابر قرار نہیں دئیےجاسکتے ، اگرچہ ظاہری نظر میں ناپاک کی کثرت اپنی چمک دمک یا مادِّی فوائد کی وجہ سے اچھی لگے۔ دنیا کی حقیقت یہ ضرور ہے کہ دنیا داروں کو مال و دولت کی کثرت اور دنیا کی زیب و زینت بھاتی ہے ، لیکن اصل الاصول حقیقت یہی ہے کہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ، وہ اعلیٰ ، عمدہ اور زیادہ شان والی ہیں ، کیونکہ دنیا کی زینت و آرائش اور نعمتیں ختم ہو جائیں گی ، جبکہ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی۔ اس لئے ظاہری خوبی دیکھ کر باطنی خوبی سے آنکھیں بند کرلینا ، ظاہر میں شہد نظر آنے پر اندر چُھپا زہر فراموش کردینا ، عقل و دانش کے خلاف ہے ، لہٰذا اے عقل والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ناپاک کو چھوڑ دو اگرچہ وہ بہت زیادہ ہو اور پاکیزہ کو اختیار کرو اگرچہ وہ تھوڑا ہو ، تاکہ تم ہلاکت سے بچ کر اللہ کے ہاں حقیقی فلاح پاسکو۔

قرآن مجید میں اس مفہوم کی کئی آیات ہیں جن میں اچھے بُروں اور اچھائی برائی کے برابر ہونے کی نَفی کی گئی ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُۙ(۱۹)وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ(۲۰)وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ(۲۱)وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ(۲۲) )ترجمہ : اور اندھا اور دیکھنے والابرابر نہیں اور نہ اندھیرے اور اجالا اور نہ سایہ اور تیز دھوپ اور زندہ اور مردے برابر نہیں۔ (پ22 ، الفاطر : 19تا22)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  دوسری جگہ فرمایا :

(اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ٘-اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ(۲۸)) ترجمہ : کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمانوں جیسا کردیں گے؟(پ23 ، صٓ : 28)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک مقام پر فرمایا : ( اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۠(۲۱) )ترجمہ : کیاجن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں اُن جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے (کیا) ان کی زندگی اور موت برابر ہوگی؟ وہ کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں۔ (پ25 ، الجاثیۃ : 21)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  ایک جگہ فرمایا گیا : ( اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَؕ(۳۵)مَا لَكُمْٙ-كَیْفَ تَحْكُمُوْنَۚ(۳۶) ) ترجمہ : توکیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا کردیں۔ تمہیں کیا ہوا؟ کیسا حکم لگاتے ہو؟(پ 29 ، القلم : 35 ، 36)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

خلاصۂ آیات یہی ہے کہ دل کا اندھا کافر اورایمان کی روشنی رکھنے والادیدہ و بینا مومن برابر نہیں۔ کفر کے اندھیرے اور ایمان کا اجالا برابر نہیں۔ رحمتِ الٰہی کا سایہ اور غضبِ الٰہی کی تیز دھوپ ایک جیسی نہیں ، یونہی ایمان کی قلبی زندگی سے حیات پانے والے اہلِ ایمان اور کفر کی مردہ دلی میں پڑے کفار آپس میں برابر نہیں۔ صالحین و فاسق ایک جیسے نہیں اورمتقین و فاجرین جدا جدا ہیں ، پرہیزگاروں کو نافرمانوں جیسا قرارنہیں دیا جائے گا۔ کفرو معصیت کی برائیوں میں پڑے لوگ ، ایمان و تقویٰ کے حامل مومنین صالحین کے برابر ہوہی نہیں سکتے ، دونوں کی زندگی اور موت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مطیعوں کو مجرموں جیسا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے!

خبیث اور طیب میں بہت ساری چیزیں داخل ہیں :

(1) حرام و حلال : چنانچہ حلال کا ایک ذَرَّہ ، حرام کے دنیا بھر کے خزانوں سے بہتر ہے ، کہ حلال کا ایک روپیہ بھی صدقہ کریں تو ثواب ہے ، جبکہ حرام کا سونے کا پہاڑ بھی صدقہ کردیں تو ثواب نہیں بلکہ عذاب ہے۔ حدیث میں فرمایا : سیدناابوہریرہ  رضی اللہُ عنہ  کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  نے فرمایا : ’’ اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے اوروہ قبول نہیں کرتا مگر پاک مال کو (یعنی حلال کو)۔ “ (مسلم ، ص393 ، حدیث : 2346) کوئی مالِ حرام صدقہ کرے توقبول نہیں ، خرچ کرے توبرکت نہیں اور چھوڑ کر مرے تواس کےلئے عذاب ہے جبکہ حلال کا پہاڑ برابر سونا بھی کوئی کما لے تو اُسے اُس پر عذاب نہیں بلکہ اچھی نیت سے کمانے پر ثواب ہے اور وہ حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔ رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : سچے اور امانت دار تاجر کا حشر قیامت میں انبیا ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا (ترمذی ، 3 / 5 ، حدیث : 1213)دوسری طرف حرام کا ایک سِکَّہ بھی کمایا تو عذاب کا سبب ہے۔ حدیث میں فرمایا : وہ گوشت جنت میں داخِل نہیں ہو گا ، جو مالِ حرام سے پلا بڑھا ہو ، بلکہ آگ اُس انسان کے زیادہ لائق ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ، 10 / 367)

(2)گناہ اور نیکی برابر نہیں : کیونکہ گناہ کی لذت تو تھوڑی دیر میں ختم ہوجاتی ہے ، لیکن اس کا گناہ اور سزا باقی رہتی ہے ، جبکہ نیکی کی مَشَقَّت تھوڑی دیر کےلئے ہوتی ہے ، لیکن اُس کا ثواب ہمیشہ کےلئے لکھ دیا جاتا ہے۔ حدیث میں فرمایا : البرّ لا يبلى والاثم لايُنسى والديان لا يموت نیکی پرانی نہیں ہوتی اور گناہ بھلایا نہیں جاتا اور حساب لینے والا خدا ہمیشہ زندہ ہے ، اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ (فيض القدير ، 3 / 218) اور قرآن مجید میں فرمایا : (فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷)وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸) ) تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گااور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔ (پ30 ، الزلزال : 7 ، 8)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(3) کافر اور مومن برابر نہیں : کہ کافر تمام تَر دنیا کا مالک بھی ہوجائے تب بھی یہ صرف ایک “ مُہلت “ ہے جس کے خاتمے پر دائمی عذاب ہے ، جبکہ مومن پر دنیا جہان کی مصیبتیں بھی آپڑیں ، تو یہ محض ایک قید خانے کی کچھ عرصے کی پریشانیاں ہیں ، جس کے بعد راحتوں ، نعمتوں کی جنت ہے ، جس میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ قرآن میں فرمایا : اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا ہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔ (یہ تو زندگی گزارنے کا ) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنتیں ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ہمیشہ اُن میں رہیں گے (یہ) اللہ کی طرف سے مہمان نوازی کا سامان ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکوں کے لئے بہترین چیز ہے۔ (پ4 ، آلِ عمرٰن : 196تا 198) اورحدیث میں ہے : الدنیا سجن المؤمن و جنۃ الکافر ترجمہ : دنیا مسلمان کے لیے قید خانہ اور کافِر کے لیے مثلِ جنت ہے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ، 7 / 129) قرآن میں فرمایا : توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے۔ وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔ اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔ تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ ہے۔ (پ 30 ، القارعۃ : 6تا11)اور فرمایا : تو بہرحال جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا : لو میرا نامہ اعمال پڑھ لو۔ بیشک مجھے یقین تھا کہ میں اپنے حساب کو ملنے والا ہوں۔ تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔ بلند باغ میں۔ اس کے پھل قریب ہوں گے۔ (کہا جائے گا : ) گزرے ہوئے دنوں میں جو تم نے آگے بھیجا اس کے بدلے میں خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو۔ اور رہا وہ ، جسے اُس کانامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا : اے کاش کہ مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ اے کاش کہ دنیا کی موت ہی (میرا کام) تمام کردینے والی ہوجاتی۔ میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میراسب زور جاتا رہا۔ (پ 29 ، الحاقۃ : 19تا29)

(4)فاسق اورنیک برابر نہیں : کہ فاسق اللہ تعالیٰ ، اُس کے فرشتوں اور نیک لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہے ، جبکہ نیک آدمی اللہ تعالیٰ ، اس کے معزز فرشتوں اور صالحین کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہوتا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے : اللہ پاک جب کسی بندے سے محبت کرتا ہےتو جبریل امین کو ندا کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں فُلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ حضرت جبرائیل  علیہ السّلام  اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور آسمان والوں میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ پاک فُلاں سے محبت کرتا ہے ، تم بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ اس سے آسمان والے بھی محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری ، 2 / 382 ، حدیث : 3209)

(5)برے اور اچھے اخلاق برابر نہیں : برے اخلاق مثلاً تکبُّر ، حرص ، حَسَد ، کینہ وغیرہا ، یہ چیزیں دنیا میں بھی باعثِ ذلت ہیں اور آخرت میں بھی سببِ ہلاکت ہیں ، جبکہ اچھے اخلاق مثلاً عاجِزی و اِنکساری ، قناعت اورشُکْر گزاری دنیا میں بھی سببِ راحت ہیں اور آخرت میں باعثِ نجات ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت ، فیضان مدینہ  کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code