سفر نامہ
تُرکی کا سفر(قسط : 02)
* مولانا عبدالحبیب عطاری
ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021
فروری 2021ء بروز جمعرات سلطان محمد فاتح رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار پر حاضری کے بعد ہم عاشقانِ رسول کے ایک ادارے کے ذمہ داران سے ملنے گئےجو پاکستان میں بڑی تعداد میں قراٰنِ کریم تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ کافی دیر تک ان سے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں سے متعلق مشاورت کا سلسلہ رہا اور قراٰنِ کریم سے متعلق بھی بڑی شاندار گفتگو ہوئی ، اس کے بعد ہم اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے۔
ان دنوں ترکی میں کرونا وائرس کی وجہ سے رات 9 بجے لاک ڈاؤن لگادیا جاتا تھا اور تقریباً تمام کاروبار بند ہوجاتا تھا۔ رات ہم نمازِ عشاکے بعد جلد سوگئے ۔
نمازِ فجر میں نمازیوں کی بہار :
اگلے دن19فروری2021ء بروز جمعہ بھی ہم نے نمازِ فجر حضرت سیّدنا ابوایوب انصاری رضی اللہُ عنہ کے مزار شریف والی مسجد میں ادا کی ، مسجد میں اوپر نیچے تمام فلور نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ نمازِ فجر کے بعد ذکر و اذکار اور دعا کا سلسلہ ہوا۔ ما شآءَ اللہ ترکی کے عاشقانِ رسول میں نمازوں کا شوق ، عشقِ رسول اور اولیائے کرام سے محبت کے جذبات قابلِ رشک ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں بھی سارا سال نمازِ فجر میں بھی مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہوں۔
یہاں ہماری ملاقات کراچی سے زیارتوں کیلئے ترکی آنے والے ایک قافلے سے ہوئی ، ہم سب نے مل کر مزار شریف پر حاضری دی ، نعت خوانی کا سلسلہ ہوا ، صلوٰۃ و سلام پڑھا گیا اور اجتماعی دعا مانگی گئی۔
یہاں سے اپنی رہائش گاہ آکر ہم نے کچھ دیر آرام کیااور ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر بورصہ (Bursa) کا سفر شروع کیا۔ یہ سفرایک تیزرفتارکشتی(Speedboat)کےذریعے تقریباً 2گھنٹے میں ہوا۔ بورصہ میں صاحبِ روح البیان حضرت اسماعیل حقی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 1127ھ) سمیت کئی بزرگانِ دین کے مزارات ہیں۔ اللہ پاک نے بورصہ کو انتہائی خوبصورت نظاروں سے نوازا ہے۔ یہاں سے ہم نے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ تحائف بھی خریدے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے بانی :
بورصہ(Bursa)میں ہم سلطنتِ عثمانیہ کے بانی سلطان عثمان غازی کے مزار پر بھی حاضر ہوئے۔ سلطنتِ عثمانیہ مسلمانوں کی بہت بڑی سلطنت تھی جو سلطان عثمان غازی کے نام پر قائم ہوئی اور اس کا مرکز ترکی رہا۔ اِس وقت پوری دنیا میں کسی ملک کا رقبہ سلطنتِ عثمانیہ کے برابر نہیں ہے ، عرب شریف سمیت موجودہ مسلمان ملکوں میں سے اکثر اس سلطنت کا حصہ تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ حرمین شریفین یعنی مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ میں بھی سلطنتِ عثمانیہ کی خدمت تھی اورجب تک وہاں ان حضرات کی خدمت کا سلسلہ رہا ، حرمینِ طیّبین میں عاشقانہ و صوفیانہ رنگ نمایاں طور پر ظاہر رہا۔
خوش نصیبی سے ہمیں اس سفر میں شیخُ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطّاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی صاحب کی رفاقت حاصل تھی۔ سلطان عثمان غازی کے مزار کے پاس مفتی صاحب نے سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ سے متعلق نہایت اہم اور ایمان افروز معلومات بیان فرمائیں۔
بورصہ میں مزارات پر حاضری کے بعد واپس اپنی رہائش استنبول میں آگئے۔
استنبول سے قونیہ روانگی :
20فروری بروز ہفتہ صبح 8 بجے کی ٹرین کے ذریعے ہم استنبول سے قونیہ کے سفر پر روانہ ہوئے ، یہ سفر تقریباً 5 گھنٹے کا تھا۔ سفرِ مدینہ کے دوران امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے ساتھ بھی اس طرح کی جدید اور تیز رفتار ٹرین میں سفر کی سعادت نصیب ہوئی تھی ، اللہ کریم پھر سے سفرِ مدینہ نصیب فرمائے۔
قونیہ میں کئی اولیائے کرام مدفون ہیں اور بالخصوص یہاں مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 672ھ) کا مزار شریف موجود ہے۔ میں نے کئی بار ترکی کا سفر کیا ہے لیکن قونیہ جانے کا موقع نہیں ملا تھا اس لئے مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار پر حاضری کی بہت تمنا تھی۔ دوپہر تقریباً ایک بجے ہم قونیہ پہنچے تو یہاں نہایت خوشگوار موسم تھا۔
صفائی کا انتظام :
ترکی کے مسلمانوں میں مساجد اور مزاراتِ اولیا کے ادب کے کئی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہم مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوئے تو باہر مخصوص قسم کی تھیلیاں دی جاتی تھیں تاکہ انہیں جوتوں پر چڑھا لیا جائے اورجوتوں سے مٹی وغیرہ اندر نہ گرے۔ کاش! ہمارے یہاں بھی اس طرح کا کوئی سلسلہ شروع ہو جائے۔
روحانی کیفیت کا احساس :
ہم مزار شریف کی عمارت میں داخل ہوئے تو دل میں ایک عجیب قسم کی روحانیت کا احساس ہوا۔ عمارت کے اندر مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ کے علاوہ بھی کئی مزارات موجود تھے جن میں سے بعض پر سبز اور بعض پر سفید عمامے رکھے ہوئے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سبز عماموں والے مزارات آپ کی اولاد کے جبکہ سفید عماموں والے آپ کے شاگردوں کے ہیں۔
تبرکات کی زیارت :
مزار شریف پر حاضری کے دوران کئی تبرکات کی زیارت بھی ہوئی جن میں 750 اور 550 سال پہلے ہاتھ سے لکھے گئے قراٰنِ کریم کے نسخے بھی شامل ہیں ، یہیں مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ کے جبہ مبارک اور ٹوپی کی زیارت بھی ہوئی۔
تذکرہ مولانا روم :
مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ بہت بڑے بزرگ اور عاشقِ رسول تھے۔ ترکی میں جب مطلقا صرف ’’مولانا‘‘کہا جائے تو اس سے آپ ہی کی ہستی مراد لی جاتی ہے۔
مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ ، آپ کے والد اور دادا تینوں کا نام محمد ہے ، یعنی آپ محمد بن محمد بن محمد ہیں۔ آپ کے والدِ ماجد بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے ، بہاؤالدین کے لقب سے مشہور تھے اور بلخ سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت بھی بلخ میں ہوئی اور آپ نے زیادہ تر علوم اپنے والد سے ہی حاصل کئے۔ تقریباً 20 سال کی عمر میں ہی مختلف علوم و فنون میں مہارت کے سبب آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ بعد میں سلطان علاؤ الدین کیکباد کی درخواست پر آپ بلخ سے قونیہ تشریف لائے اور باقی زندگی یہاں گزاری۔ یہاں آپ کے خطبۂ جمعہ اور در س و بیان کی شہرت رہی لیکن آج کل لوگ آپ کو ’’مثنوی مولانا روم ‘‘ کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔
مثنوی مولانا روم کم و بیش 8 ہزار سے زیادہ فارسی اشعار پر مشتمل ہے۔ مثنوی شریف سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اصل میں مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ کے پیر و مرشد مولانا شمس تبریز رحمۃُ اللہِ علیہ کے اسرار تھے جنہیں مولانا روم کی زبان سے بیان کیا گیا۔ مثنوی شریف کو دنیا کی سو بہترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
مولانا روم رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف کے بعد ہم قریب ہی واقع ان کے پیر و مرشد مولانا شمس تبریز رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 645ھ) کے مزار پر بھی حاضر ہوئے۔ مولانا روم اور مولانا شمس تبریز رحمۃُ اللہِ علیہ مادونوں بزرگوں کے مزارات کے پاس مفتی قاسم صاحب نے ان بزرگوں کی سیرت اور مولانا روم کی اپنے پیر ومرشد کے دامن سے وابستگی اور والہانہ عقیدت سے متعلق نہایت کارآمد معلومات فراہم کیں۔
اللہ کریم ان بزرگوں کے مزارات پر انوار و تجلیات کی بارش برسائے اور ان مبارک ہستیوں کے طفیل ترکی میں دعوتِ اسلامی کو دن گیارہویں رات بارہویں ترقی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن شوری و نگران مجلس مدنی چینل
Comments