علمائے دین کی عظمت و شان کا سبب

آخر درست کیا ہے؟

علمائے دین کی عظمت و شان کا سبب

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

علمی ذوق رکھنے والے ہر شخص پر یہ حقیقت عیاں ہے کہ علم اور اہلِ علم کااعزاز و اکرام قرآن و حدیث میں بہت شان سے بیان کیا گیا ہے۔ آدم علیہ السّلام کی علمی فضیلت کے اظہار پر فرشتوں کا انہیں سجدہ کرنا، موسیٰ علیہ السّلام کا حصول علم کے لئے خضر علیہ السّلام کی طرف سفر، قارون کی دنیاوی شان و شوکت اور مال کی فراوانی دیکھ کر متاثر ہونے والوں کو اہلِ علم کی نصیحتیں، لقمان رضی اللہُ عنہ کے علم و حکمت کا اظہار، آصف بن برخیا رضی اللہُ عنہ کا علم الکتاب کے ذریعے عظیم کرامت دکھانا اور سب سے بڑھ کر، اعلم الخلق یعنی کائنات میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی عظیم ہستی، محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو علم میں اضافے کی دعا کرتے رہنے کا حکمِ ربانی، علم و علماء کی شان بیان کرنے کے کافی ہے۔

ان تمام حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں علماء کی شان کس قدر بلندہے اور یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ ہر شان و مرتبے کاکوئی سبب ہوتا ہے، مثلا مجاہدین کی شان اس لئے ہے کہ وہ خدا کےلئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، عابدین کی عظمت اس لئے ہے کہ وہ اپنی نیند، آرام اور راحت قربان کرتے ہیں۔اسی طرح اہلِ علم کی فضیلت و شان کے بھی اسباب ہیں جن میں ایک سبب تو خود علم کا ذاتی شرف ہے کہ علم بذاتِ خود سببِ فضیلت ہے اور علماء کی شان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی ترویج و اشاعت، تبلیغ و تعلیم اور بقاء و غلبہ کےلئے اپنی زندگی صَرف کرتے ہیں اور جو بھی خدا کے دین کےلئے محنت و کوشش کرے گا، وہ خداوند کریم کی بارگاہ میں پسندیدہ ہوگا، جیسے اگر ایک استاد، پڑھائی کے متعلق طلبہ کو کچھ کام کرنے کا حکم دے لیکن طلبہ غافل بیٹھے، اپنی مستیوں میں مگن رہیں۔اب اگر اسی کلاس میں سے کوئی لڑکا کھڑا ہوکر طلبہ کا ذہن بنائے کہ دیکھو ہمیں اپنے استاد کی بات ماننی چاہیے، ہمیں محنت سے پڑھنا چاہیے، ہمیں اپنے تمام تعلیمی کام مکمل کرنے چا ہئیں وغیرہا، تو ظاہر ہے کہ طالب علم کے اس کردار سے استاد کو بڑی خوشی ہوگی کہ میرے احکام کی تعمیل کروانے میں یہ لڑکا کس قدر کوشش کررہا ہے۔ اسی کی دوسری مثال کسی بھی ملک کے وہ افراد ہیں جو ملک میں امن و امان پیدا کرتے، فساد ات اور سازشوں کو ختم کرتے یا اچھے کاموں میں ملک کا نام روشن کرتے ہیں،انہیں ملک میں ہیرو قرار دیا جاتا ہے اوراہلِ وطن ان کی عزت کرتے ہیں۔

 ان مثالوں سے آپ عالم   کی عظمت کے اسباب سمجھ لیں کہ ایک طرف تو خدا کے اپنی مخلوق کے لئے عقائد و عبادات و معاملات و اخلاقیات کے متعلق بہت سے احکام ہیں مثلاً یہ کہ اللہ کو تنہا معبود مانو، اس کے تمام رسولوں، کتابوں، فرشتوں وغیرہا پر ایمان لاؤ۔ اللہ کی عبادت کرو، نماز، روزے، حج، زکوٰۃ کی پابندی کرو، خدا کا قرآن پڑھو، سمجھو اور اس پر عمل کرو۔ مخلوق کے حقوق ادا کرو، ماں باپ، اولاد، بہن بھائی، بیوی بچے، پڑوسی، اجنبی، انسان و حیوان سب کے ساتھ حسب حال اچھا سلوک کرو۔ اپنے دل تکبر، حسد، بغض، ریاکاری، دنیا کی محبت سے پاک رکھو اور اچھے اخلاق ِ باطنی سے خود کو آراستہ کرو جیسے اخلاص، توکل، زہد، قناعت، صبر، شکر، محبتِ الٰہی وغیرہا۔ یہ روئے زمین کے جملہ انسانوں کو خدا کے احکام ہیں۔

دوسری طرف مخلوق کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ اربوں لوگوں کا عقیدہ خراب ہے، کوئی دہریہ، کوئی مشرک، کوئی کسی باطل عقیدے سے چمٹا ہوا، تو کوئی کسی دوسرے سے۔ یہی حال عبادات کا ہے کہ نہ ماننے والوں کی عبادت سے دوری تو بدیہی ہے لیکن ماننے والوں میں کتنے نمازی، پرہیزگار ہیں، وہ بھی ہمیں معلوم ہے۔ حقو ق العباد میں غفلت، قتل و ظلم و ایذاء رسانی اور حرام و رشوت کی لَت کی بھرمار ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد کے دل تکبرو حسد کا شکار اور مال و دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں۔ اخلاص، توکل، صبر و شکر کی تلاش کریں تو اولیاء کے نام ہی سامنے آتے ہیں، عوام میں ریاکاری، اسباب پر کلی اعتماد، بے صبری اور ناشکری عام ہے۔ الغرض ایک طرف خدا کے احکام ہیں اور دوسر ی طرف مخلوق کی غفلتیں اور بدعملیاں ہیں۔ ایسی صورت میں علمائے دین کی ذاتیں ہی خدا کی طرف بلانے والی وہ ہستیاں ہیں جو احکامِ خداوندی کی طرف راغب کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں اور علم پڑھتے ہیں، پڑھاتے ہیں، دین سیکھتے ہیں، سکھاتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، کرواتے ہیں، لوگوں کو مسائل سمجھاتے، حلال و حرام کا فرق بتاتے، عقیدوں کی تشریح و توضیح کرتے، ان میں بگاڑ سے بچاتے، موت، قبر، آخرت کی یاد دلاتے اوراصلاحِ اعمال کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ الغرض یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی طرح انسان ہیں، صحیح سلامت ہاتھ پاؤں رکھتے ہیں، لہٰذا چاہیں تو بقیہ لوگوں کی طرح دنیا کمائیں، موج مستی کریں، دین کی پابندیاں چھوڑیں، خواہشات کے پیچھے دوڑیں لیکن یہ علماء ان غفلتوں میں پڑنے کی بجائے دین سیکھ کر لوگوں کو سکھانے اور دین کی سربلندی کیلئے مصروفِ عمل ہیں، لہٰذا جب علمائے دین نے اپنی زندگی خدا کیلئے وقف کی،تواللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں ان کا مرتبہ بھی اتنا ہی بلندکردیا اور قرآن میں فرمایا: اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا(پ28،سورۂ مجادلہ:11) اور یہی وجہ ہے کہ علماء خدا کو جتنے پسند ہیں، اتنے ہی شیطان اور اس کے پیروکاروں کو ناپسند ہیں چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایک عالم و فقیہ، ایک ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر بھاری ہوتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ،4/312، حدیث:2690) یعنی شیطان کو ایک ہزار عبادت گزاروں سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی ایک عالم ِ دین سے ہوتی ہے، کیونکہ عبادت گزار تو عبادت میں لگ کر اپنی تنہا نجات کی کوشش کرتا ہے جبکہ عالم اپنی نجات کے ساتھ دیگر ہزاروں، لاکھوں اور کبھی اس سےبھی زیادہ لوگوں کی نجات کی کوشش کرتا ہے۔ عالم خود توشیطان کے وار سے بچتا ہے مگر ساتھ ہی دوسروں کو بچانے  کی کوشش کرتا اور شیطان کے منصوبوں کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑا ہوجاتاہے۔ اسی وجہ سے شیطان کو عالمِ دین سے زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

 ویسے تو حدیث میں شیطان کے متعلق بتادینے کی وجہ سے ہمیں ایمان ہے کہ شیطان کوہزار گُنا زیادہ تکلیف ہوتی ہے لیکن بہرحال شیطان اور اس کی تکلیف ہمیں نظر نہیں آتی، اس لئے حدیث کی صداقت کا مشاہدہ کرنے کے لئے جناتی شیطانوں کی بجائے انسانی شیطانوں کو دیکھ لیں کہ لادینیت، الحاد، بے حیائی، فحاشی پھیلانے والے اور روشن خیالی وغیرہ کے حمایتی چونکہ شیطانی مقاصد کی تکمیل کرتےہیں اور علمائے دین اس کا تقریری و تحریری ہر محاذ پر مقابلہ کرتے ہیں تو شیطان کی طرح اس کے انسانی پیروکار اور نمائندے بھی علمائے کرام کے خلاف لکھتے، بولتے، چیختے، دھاڑتے اور منہ سے جھاگ اڑاتے پھرتے ہیں اور کیوں نہ ہوکہ  اگر کوئی شخص خدا کی اطاعت سے کسی کو ہٹانے کی کوشش کرے تو علماء کواُس پر جلال آتا ہے، کیونکہ علماء، بندگانِ رحمٰن ہیں، دوسری طرف جب علمائے کرام، شیطان کی پیروی سے لوگوں کو ہٹانے، بچانے اور دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں توبندگانِ شیطان کو بھی غصہ آتا ہے۔

بہرحال ہم تو یہی کہیں گے، ’’ہمارے لئے ہمارا عمل، تمہارے لئے تمہارا عمل‘‘ لیکن قیامت میں پتا چلے گا کہ کون مبلغینِ دین یعنی پیغمبرانِ خدا، سچے انبیاء علیہم الصّلوٰۃ والسّلام کی معیت میں عزت پا تاہے اورکون دین دشمنی کرنے والے شیطان کی رفاقت میں کھڑا ہوکر رُسوا ہوتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code