اپنے بزرگوں کو یاد رکھئے
*مولانا ابو ماجد محمد شاہد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2023ء
شعبانُ المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام ، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وصال یا عرس ہے ، ان میں سے77کا مختصر ذکر ” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ شعبانُ المعظم 1438ھ تا 1443ھ کے شماروں میں کیا جا چکا ہے ، مزید11کا تعارف ملاحظہ فرمائیے :
صَحابہِ کرام علیہمُ الرِّضوان :
( 1 ) صحابیِ رسول حضرت ہِشام بن صُبابہ کنانی لیثی رضی اللہ عنہ غزوۂ بنی مصطلق ( شعبان 5ھ ) میں شریک ہوئے اور بہت جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ، اسی غزوے میں بنو نجارکے ایک انصاری صحابی نے انہیں غلطی سے غیر مسلم سمجھتے ہوئے شہید کردیا ، نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بھائی کو ان کی دیت دلادی۔ [1]
* شہدائے سریہ بشیر بن سعد : شعبان 7ھ میں حضرت بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ کو 30صحابۂ کرام کے ہمراہ فِدَک کےبنومرہ قبیلے کی طرف بھیجاگیا ، انہوں نے رات بھر بنومرہ پر تیراندازی کی حتی کہ ان کے تیرختم ہوگئے ، صبح بنومرہ نے حملہ کردیا ، بعض صحابۂ کرام شہید ہوگئے ، حضرت بشیر زخمی ہوئے ، دشمن نے انہیں شہید سمجھ کر چھوڑ دیا ، رات کو یہ فدک چلے گئے اور زخم درست ہونے کے بعد واپس مدینۂ منورہ لوٹے۔[2]
اولیائے کرام رحمہم اللہ السَّلام :
( 2 ) سلسلۂ قادریہ کے بزرگ حضرت سیّد داؤد امیر حسنی رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 11شعبان245ھ کو مدینۂ منورہ میں ہوئی اور 12شعبان 321ھ کو مکۂ مکرمہ شریف میں وصال فرمایا ، وہیں تدفین ہوئی۔ آپ متقی عالم ، کریمُ النفس ، باوقار اور صاحبِ وجاہت و ہیبت تھے ، آپ بلند عزم و ہمت ، صاحبِ حکمت و دانائی ، کثیر زُہد و عبادت اور تقویٰ و پرہیزگاری میں مشہور تھے۔[3]
( 3 ) نقشبندی بزرگ حضرت مولانا خواجہ محمد مقتدیٰ خواجگی امکنگی رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت امکنہ نزد بخارا ازبکستان میں 918ھ کو ہوئی اور یہیں 22شعبان 1008ھ کو وصال فرمایا ، آپ مرتبۂ تکمیل و ارشاد پر فائز ہو کر مرجعِ طریقت رہے۔[4]
( 4 ) شمسُ العرفاء حضرت سیّد شاہ غلام محی الدین امیر عالم رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 1223ھ کو مارہرہ میں ہوئی اور 5شعبان 1286ھ کو لکھنؤ میں وصال فرمایا ، مولانا عبد المجید بدایونی اور مولانا سلامت اللہ کشفی وغیرہ رحمۃُ اللہ علیہم سے علومِ اسلامیہ حاصل کئے ، سلسلہ عالیہ کی خلافت چچا جان حضرت شاہ آلِ احمد اچھے میاں ، والدِمحترم حضرت شاہ آلِ برکات ستھرےمیاں اور برادرِکبیر حضرت شاہ آلِ رسول رحمۃُ اللہ علیہم سے حاصل کی ، تمام عمر طاعت و عبادت اور اِمارت میں بسر کی۔[5]
( 5 ) جدِاَمجدآلِ قاسمی گیلانی دمشقی ، حضرت شیخ سیّد قاسم ابوبکر حلاق گیلانی رحمۃُ اللہ علیہ کی پیدائش 1223ھ کو دمشق میں ہوئی اور یہیں شعبان 1284ھ کو وصال فرمایا ، بابُ الصغیر قبرستان میں دفن کئے گئے ، آپ خاندانِ غوثُ الاعظم کے عظیم فرد ، علما و مشائخِ شام و مصر کے تلمیذ ، جامع سنانیہ کے حدیث و فقہ کے استاذ ، قادریہ ، رفاعیہ ، نقشبندیہ سلاسل کے شیخِ طریقت ، 8کتب کے مصنف اور صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ مَوْرِدُ النَّاھِلِ بِمَوْلِدِ النَّبِیِّ الْکَامِل آپ کی یادگار ہے۔ [6]
( 6 ) خطیبِ اسلام حضرت پیر سیّد سعید شاہ بنوری کوہاٹی رحمۃُ اللہ علیہ 1310ھ میں گڑھی بنوریاں ( کوہاٹK.P.K ) کے بنوری سادات میں پیدا ہوئے اور 28شعبان1390ھ کو وصال فرمایا۔ آپ دینی و دنیوی علم سے روشناس ، حضرت امیرِ ملت کے مرید و خلیفہ ، حق گو و جادو بیاں مقرر اور متحرک و فعّال کردار کے حامل تھے۔ کثیر لوگوں نے آپ سے ظاہری و باطنی فوائد حاصل کئے ، آپ نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔[7]
علمائے اسلام رحمہم اللہ السَّلام :
( 7 ) جامعِ شریعت و طریقت حضرت مولانا خواجہ ضیاءُ الدّین چنیوٹی رحمۃُ اللہ علیہ کی پیدائش 1228ھ میں چنیوٹ کے بلوچ خاندان میں ہوئی اور 2شعبان 1301ھ کو وصال فرمایا ، مزار چنیوٹ میں ہے۔ آپ عالمِ دین ، مرید و خلیفہ خواجہ سلیمان تونسوی ، اوراد و وظائف کے پابند اور عاشقِ غوثِ اعظم تھے۔[8]
( 8 ) مناظرِاسلام حضرت مولانا محمد کرمُ الدین دبیر رحمۃُ اللہ علیہ 1268ھ کو گاؤں بھیں ضلع چکوال میں پیدا ہوئے اور 18 شعبان 1325ھ کو وصال فرمایا ، اور چکوال میں ہی تدفین ہوئی۔ آپ جید عالمِ دین ، بہترین مناظر ، صاحبِ علم و فضل ، مرید حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی ، مصدق حسامُ الحرمین ، ناموسِ رسالت و دین کے سچے محافظ ، آفتابِ ہدایت سمیت کئی کتب کے مصنف ، مؤثر و پُراثر واعظ اور فعال و بارعب شخصیت کے مالک تھے۔[9]
( 9 ) استاذُالعلماء حضرت مولانا قاضی سلطان احمد ہاشمی رحمۃُ اللہ علیہ جید عالمِ دین ، مدرس درسِ نظامی ، مریدِ خواجہ سلیمان تونسوی ، خلیفہ میاں فضل کلیامی ، مفتی و قاضی اور درویش و سادہ طبیعت کے مالک تھے ، آپ کا وصال 30شعبان 1329ھ کو ہوا ، تدفین قَطبال ( تحصیل فتح جنگ ، ضلع اٹک ) میں ہوئی۔[10]
( 10 ) حضرت مولانا اللہ بخش مٹھیالوی رحمۃُ اللہ علیہ 1326ھ کو مٹھیال ( ضلع اٹک ) میں پیدا ہوئے اور 5شعبان 1409ھ کو وصال فرمایا ، قبرستان خانقاہ گولڑہ اسلام آباد میں تدفین ہوئی۔ آپ عالمِ باعمل ، صدر مدرس جامعہ غوثیہ گولڑہ ، مرید قبلۂ عالَم پیر مہر علی شاہ اور استاذُالعلماء تھے۔[11]
( 11 ) یادگارِ اَسلاف مفتی عبدالغفور شرقپوری قادری رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 1357ھ میں دو گیچ ٹاؤن لاہور میں ہوئی اور وصال 27شعبان 1428ھ کو ہوا ، مزار مبارک قبرستان شاہ بدر دیوان بر لب گھوڑے شاہ روڈ پر ہے۔ آپ جامعہ حضرت میاں صاحب شرق پور اور دارُالعلوم حِزبُ الاحناف کے فاضل ، ثانی صاحب میاں غلام اللہ شرقپوری کے مرید ، حضرت شاہ ابوالبرکات قادری کے خلیفہ ، استاذُالعلماء ، شیخِ طریقت اور بانیِ جامعہ فاروقیہ رضویہ گجر پورہ لاہور ہیں۔[12]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ
[1] الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ، 6 / 422 ، مغازی للواقدی ، 1 / 404
[2] سبل الہدیٰ والرشاد ، 6 / 132
[3] اتحاف الاکابر ، ص159-تذکرہ مشائخ قادریہ ، ص56
[4] حضرات القدس مترجم ، دفتر اول ، ص 259-تاریخ مشائخ نقشبند ، ص264
[5] تاریخ خاندانِ برکات ، ص69 ، 70 ، 76
[6] اتحاف الاکابر ، ص422
[7] تذکرہ خلفائے امیرملت ، ص322
[8] فوزالمقال فی خلفائےپیرسیال ، 8 / 603
[9] تذکرۂ علمائے اہلسنت ضلع چکوال ، ص108تا 113
[10] تاریخ علمائے بھوئی گاڑ ، ص110
[11] تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع اٹک ، ص282
[12] خانوادہ حضرت ایشاں ، ص690تا694
Comments