آخر درست کیا ہے ؟
چھوٹے چھوٹے مسئلے کیوں ؟
مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ مارچ 2023
دینِ اسلام کے بارے میں مسلمانوں میں یہ جملے عام ہیں کہ اَلحمدُ لِلّٰہ ، اِس میں ہر چیز کی تفصیل موجو دہے اور زندگی کے جملہ شعبوں کے متعلق اَحکام بیان کیے گئے ہیں۔ اِسلام ایک آفاقی ، عالَم گیر ، جامع اور کامل دین ہے۔یہ تمام دعوے بَرْحق بھی ہیں اور قرآن و حدیث و فقہ کا مطالعہ کرنے والے کے لیے مُدلَّل و مُبَرْہَن بھی ، لیکن اِس پر ایک دلچسپ سوال اٹھتا ہے ، جو بعض لوگ تو دِین بیزاری کے طور پر اُٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ حقیقتِ حال کی تحقیق کے لیے۔ ہم پہلے وہ سوال نقل کرتے ہیں ، پھر اُس کا جواب دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اَخبارات میں ایک مذہبی صفحہ ہوتا ہے ، جس میں کچھ دینی مَضامین ہوتے ہیں اور کچھ سوالوں کے جوابات ہوتے ہیں۔ مضامین تو ہر طرح کے اچھے ، تاریخی ، سَوَانحی اور اَخلاقی موضوعات پر لکھے جاتے ہیں ، لیکن مسائل بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں ہو تے ہیں ، مثلاکوئی پوچھتا ہے ، اُس نے اپنے دل میں بیوی کو طلاق دے دی ، تو طلاق ہوجائے گی یا نہیں ؟ یا عورت کا مسجد میں جانا جائز ہے یا نہیں ؟ یا یہ کہ میں نے گاڑی خریدی ہے ، لیکن ابھی کاغذات میرے پاس نہیں ہیں ، تو مجھ پر زکوٰۃ فرض ہوگی یا نہیں ؟ اس طرح کے جوابات پر اعتراض یا سوال یہ ہے کہ یہ بہت چھوٹی باتیں ہیں جن میں ہمارے علماء مصروف ہیں ، جبکہ دنیاکے مسائل بہت بڑے ہیں ، لہٰذا یا تو علماء کو معلوم ہی یہ چھوٹے مسائل ہیں یا ان کی سوچ اور رسائی کا دائرہ ہی یہ ہے۔
آئیے اِس کا جواب ملاحظہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ فی زمانہ مسلمان اگر ایسے چھوٹے چھوٹے سوال کرتے ہیں ، تو غور کریں کہ یہ عمل مسلمانوں کا ہے یا اِسلام کا ؟ اور اتنی چھوٹی باتیں پوچھنی اگر غلط یا نامناسب ہے تو یہ پوچھنے والے عوام کی غلطی ہوئی یا جواب دینے والے علماء کی ؟ نتیجہ بالکل واضح ہے کہ عالَم گیریت ، آفاقیت ، جامعیَّت اور کاملیت کا ہمارا دعویٰ اِسلام کے بارے میں ہے ، نہ کہ مسلمانوں کے متعلق ، تو اگر مسلمانوں کے عمل میں کوتاہی ہے ، تو وہ اُن ہی کی کوتاہی شمار ہوگی نہ کہ اسلام کی۔یونہی اگر یہ چھوٹے والے سوالات قِلَّتِ تدبُّر یا بلندیِ خیال کی کوتاہی کی نشانی ہیں ، تو یہ مسئلہ عوام کا ہوا ، نہ کہ علماء کا۔ علماء سے لوگ آفاقی مسائل پوچھتے ، تو وہ اُنہی کا جواب دے دیتے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ دنیا کا سب سے بہترین جنرل فزیشن ( General Physician ) کسی علاقے میں کلینک کھو لے اور وہاں آنے والے اس سے معمولی سوالات کریں کہ مجھے پیٹ درد کا علاج چاہیے ، دوسرا سر درد کا علاج مانگے ، تیسرا کہے کہ کبھی کبھار میری دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اورچوتھاکہے کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے تھوڑی سی بےچینی سی محسوس ہوتی ہے۔ اب کوئی شخص اگر یہ اعتراض کرے کہ دیکھیں ، یہ کوئی بڑا ڈاکٹر ہے جس سے لوگ چھوٹے سے ، پیٹ اور سردرد کے مسئلے پوچھ رہے ہیں۔ اِس کا جواب ہر عقل مند یہی دے گا کہ بھائی ، اِس میں ڈاکٹر کا تھوڑی قصور ہے ، یہ تو لوگوں کا مسئلہ ہے جوبڑے ڈاکٹر سے چھوٹے مسئلے پوچھ رہے ہیں۔ اتنے بڑے فزیشن ( Physician ) سے اگر بڑے مسئلے پوچھتے ، تو وہ اُن ہی کاجواب دیتا۔ تو مسئلہ ڈاکٹر کا نہیں ، مریضوں کا ہے۔ یہی معاملہ اسلام اور علماء کے ساتھ ہے کہ اسلام میں ہر چیزکی رہنمائی موجود ہے اور علماء دینی دائرے میں آنے والے ہر بڑے سے بڑے مسئلے کا جواب دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اس کے لیے تیار ہیں ، لیکن اگر لوگ ہی صرف چھوٹی چھوٹی چیزیں پوچھیں تو اسلام یا علماء کیا کریں ؟
دوسری بات یہ ہے کہ اگر لوگ معمولی قسم کے مسائل پوچھتے ہیں ، تو بارہا وہ بھی صحیح کرتے ہیں ، کیونکہ دنیااور زندگی بہت وسیع ہے ، جو لاکھوں معاملات پر مشتمل ہے۔ دنیا میں صرف بڑے مسائل ہی نہیں ہوتے ، بلکہ چھوٹے بھی ہوتے ہیں ، بلکہ زیادہ تر چھوٹے مسائل ہی ہوتے ہیں۔ اب لوگوں کو جو پیش آتے ہیں وہی پوچھتے ہیں۔ اگر کسی کو یہ مسائل پوچھنا عجیب لگتا ہے ، تو اِس کے پیچھے سبب یہ ہوسکتا ہے کہ اسے یہ پیش نہیں آتے تو اس کے لئے یہ مسائل چھوٹے یا غیر متعلقہ ہیں کیونکہ انسان کی فطرت کچھ اس طرح ہے کہ وہ جس کیٹگری ( Category ) میں رہتا ہے ، وہ اُس سے نیچے کا نہیں سوچتا ، جیسے ایک کروڑ پتی آدمی کبھی اِس پر بحث نہیں کرے گا کہ آٹا بہت مہنگا ہوگیا ، یا مرچیں خریدنا پہنچ سے باہر ہوگیا ہے ، یادودھ کی قیمت بڑھ گئی ہے ، یا پیٹرول خریدنا مشکل ہے ، وغیرہا۔ پیسے والا آدمی ان چیزوں پر بات نہیں کرے گا کیونکہ یہ غریبوں کی گفتگو ہے اور وہ پیسے والا اِن مسائل سے بالا ہے۔ پیسے والے کی گفتگو ٹیکس یا لگژری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے متعلق ہوگی۔ تواصل وجہ یہ ہے کہ ہر بندے نے اپنے لیول کی بات کرنی ہوتی ہے ، لہٰذا ایک شخص انٹرنیشنل معاملات ( International Affairs ) پر توجہ رکھتا ہے ، دنیا کے عُرُوج و زَوال ، ملکوں کے اَحوال اور عالمی طاقتوں کے باہمی تعلقات پر غور کرتا ہے ، تو اُس کی گفتگو اِسی قسم کی ہوگی ، لیکن اگر اُس سے آکر کوئی کہے کہ میرا بچہ اسکول نہیں جاتا ، کوئی طریقہ بتادیں کہ وہ اسکول جانا شروع کردے۔ اب بظاہر ماہر ِ امورِ دنیا کی نظر میں یہ بڑا عجیب سا معاملہ ہوگا کہ میں کہاں دنیا کے مسائل پر غور و فکر کرنے والامُفکر اور کہاں یہ شخص اپنے بچے کے اسکول جانے کا مسئلہ میرے پاس لے آیا ہے۔ ماہر صاحب کا یہ سوچنا اپنی جگہ معنیٰ رکھتا ہے ، لیکن پرابلم ( Problem ) یہ ہے کہ دنیا میں صرف انٹرنیشنل مسائل ہی نہیں ہیں ، بلکہ اور بھی غم ہیں محبت کے سوا۔ جس کا بچہ واقعی اسکول نہیں جارہا ، اس کے لیے یہی ”مسئلہ بخارا و سمرقند “ ہے ، تو عام آدمی کا معاملہ یہی ہے کہ اسے جو درپیش ہوگا ، وہ وہی پوچھے گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ مذہبی صفحہ پر اہل علم سے شَرَعی مسائل ہی پوچھے جائیں گے اور ان میں بعض اوقات کچھ اُمُور دیکھنے میں چھوٹے ہوتے ہیں ، لیکن فی نفسہ چھوٹے نہیں ہوتے ، کیونکہ مسائل کی دو جہتیں ہوتی ہیں۔ ایک مسئلہ ایک اعتبار سے چھوٹا سا مسئلہ ہوتا ہے ، جبکہ دوسرے اعتبار سے وہ زندگی کے ایک پورے مربوط نظام کا ایک جزو ہوتا ہے ، مثلاً ٹوائلٹ ( Toilet ) میں داخل ہوتے وقت بایاں پاؤں پہلے اندر رکھنا چاہیے اور باہر نکلتے ہوئے دایاں پاؤں پہلے باہر نکالنا چاہیے۔ واش روم میں جانے ، نکلنے اور قدم رکھنے کے معاملے میں یہ چھوٹی سی بات ہے ، لیکن اِسی کی دوسری جہت یہ ہے کہ دینِ اسلام اتنا وسیع اور جامع ہے کہ واش روم میں داخل ہونے تک کا طریقہ بھی اِس میں سکھایا گیا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ علمائے دین کے کاموں کی اہمیت سمجھنے کے لیے اَخبار کا ایک صفحہ کافی نہیں ، وہاں تو جو پوچھا گیا ، اُسی کا جواب دیا گیا۔ علماء کے کام دیکھنے کے لیے کسی دینی کتابوں کی دکان یا لائبریری ( Library ) میں چلے جائیں اور جدید و قدیم مسائل پر علماء کی سینکڑوں نہیں ، ہزاروں کتابیں دیکھیں ، اُس سے معلوم ہوگا کہ علماء صرف چھوٹے مسائل پر ہی کلام نہیں کرتے ، بلکہ عالَمی سَطْح کے اور زندگی سے جُڑے بڑے بڑے معاملات پر رہنمائی فرماتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments