فریاد
ہمارا کردار اور اسلام
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2023ء
مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ، حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ نے ( دورانِ جنگ ) ایک دشمنِ دین کو پَچھاڑا اور اس کے قتل کے اِرادے سے اُس کے سینے پر بیٹھ گئے ، اُس نے آپ کی طرف تھوک دیا ، تو آپ اس کے سینے سے اُتر گئے ، اُسے چھوڑ دیا اور قتل نہ کیا ، اُس نے پوچھا کہ آپ تو مجھے قتل کرنے پر قادر تھے پھر بھی مجھے قتل کیوں نہیں کیا ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : جب تُو نے میرے ساتھ یہ بُرا معاملہ کیا تو میرے دل میں تجھے قتل کرنے کا مزید جوش اُبھرا ، مگر ساتھ ہی یہ خوف بھی لاحِق ہوا کہ اب تیرا قتل اپنے نفس کی وجہ سے ہوگا ، خالص اللہ کے لئے نہیں ہوگا ( اِس لئے میں نے تجھے چھوڑ دیا ) ، آپ رضی اللہ عنہ کے اس حُسنِ نیت اور اچھے کردار کی بدولت وہ کافر مسلمان ہوگیا۔ ( مرقاۃ المفاتیح ، 7/12 ، تحت الحدیث : 3451 )
یاد رہے کہ مولیٰ علی شیرِ ِخدا رضی اللہ عنہ کا اس دشمنِ اسلام پر غلبہ پانا چونکہ اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کے تحت ہی تھا اس لئے آپ کا وہ کردار بھی سو فیصد اچھا ہی تھا۔ اور پھر اس کی طرف سے ایک قبیح فعل کے اِرتکاب کے سبب اسے چھوڑ دینا اور اپنے نفس کے لئے اسے قتل نہ کرنا ، آپ کا یہ کردار بھی لائقِ صَد تحسین ہی تھا۔
آخری زمانے میں اچھے کردار کی اہمیت اچھے کردار کی اہمیت اور ضرورت جس طرح ماضی میں تھی ، آج بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔ صحابیِ رسول حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : آخری زمانے میں اچھی سیرت اور اچھا کردار عمل کی کثرت سے بہتر ہوگا۔ ( احیاء العلوم ، 1/113 )
اے عاشقانِ رسول ! یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ انسان کا کردار اس سے وابستہ افراد پر اثر ڈالتا ہے۔ اچھا کردار اچھا اثر ڈالے گا اور بُرا کردار بُرا اثر ڈالنے کے ساتھ ساتھ کئی اچھائیوں کی راہ میں رکاوٹ بھی بنے گا۔
جن گھروں میں بڑے سچائی ، نرم گفتگو ، خوش اخلاقی اور نماز وغیرہ کی پابندی کرتے ہیں اکثر ان کے بچے بھی اسی راہ پر چلتے ہیں۔ اس کے برعکس گالی گلوچ ، ماردھاڑ ، تو تُکار اور آوارہ ماحول والے گھروں کے بچے بھی بڑوں کی طرح غلط راہ اختیار کرتے ہیں۔
اَخلاق و کردار کی اچھائی اور بُرائی کا اثر صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں رہتا۔ معاشرے کے ہر فرد کو دوسروں کے ساتھ کسی نہ کسی معاملے میں واسطہ پڑتا ہے۔ خرید و فروخت ، لین دین ، شادی بیاہ ، خوشی غمی الغرض ہزاروں مواقع پر دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے ان سب مواقع پر بندے کا کردار اچھا یا بُرا اثر لازمی چھوڑتا ہے۔
یوں تو ہمیں اپنے گھر اور باہر ہر جگہ ہی اپنا کردار ایسا رکھنا چاہئے جیسا اللہ کریم کی پیاری کتاب قراٰنِ مجید اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک احادیث ہمیں سکھاتی ہیں لیکن اس ترقی یافتہ دور میں کہ جب پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کرچکی ہے ، دنیا کے ایک کونے میں ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا کام چند منٹ میں دنیا کے دوسرے کونے میں مشہور ہوچکا ہوتاہے ، ان حالات میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
* ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا بات بات پر جھوٹ بولنا کسی غیرمسلم کو اسلام کے قریب کرے گا ؟
* چھوٹی چھوٹی بات پر لڑائی جھگڑے پر اُتر آنا اسلام قبول کرنے کا سبب بنے گا یا دور کرنے کا ؟
* کیا گالیاں بکنا اور بدتہذیبی سے بات کرنا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں کو عام کرنے میں رکاوٹ نہیں ؟
* بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم اور ان پر ظلم کرنے والے کیا غیرمسلم خواتین کے اسلام کے دامن میں آنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ؟
* بڑی بڑی اور خوبصورت ترین مساجد کا نمازیوں سے خالی ہونا غیرمسلموں کو کیا پیغام دیتا ہوگا ؟
* رمضانُ المبارک کے مقدس مہینے میں عام اشیائے خورد و نوش کو مہنگا کرنا کیا اُخوتِ اسلامی اور باہمی اسلامی ہمدردی کا پیغام دے گا ؟
* کیا رمضانُ المبارک کے روزے چھوڑنا اور دن کے وقت مسلم و غیرمسلم سبھی کے سامنے کھاتے پیتے پھرنا اسلامی احکام و عبادات کی اہمیت بڑھائے گا ؟
محترم اسلامی بھائیو ! یاد رکھئے کہ اگر ہمارے کردار و عمل سے کوئی دین کے قریب آگیا اور اس نے اسلام قبول کرلیاتو یہ ہمارے لئے صدقۂ جاریہ ہوگا لیکن اگر کوئی ہماری وجہ سے دینِ اسلام سے دُور رہا تو اس کا وبال بھی ہم پر ہوگا۔
یہ کردار ہی کی اہمیت ہے کہ ربِّ کریم نے ساری مخلوق کیلئے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کردار کو آئیڈیل قرار دیا۔وہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ستھرا کردار ہی تھا کہ جانی دشمن بھی دامنِ اسلام میں آگئے ، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( ترجَمۂ کنزُ الایمان : بے شک تمہیں رسو ل اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ ( پ21 ، الاحزاب : 21 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے ! اللہ کی رضا کیلئے اپنے کردار کا جائزہ لیجئے ، درستی کی حاجت ہو تو اسے دُرست کیجئے اور اس کی درستی کے لئے میرے شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے بیانات اور مدنی مذاکرے دیکھنے سننےکی عادت بنائیے ، اِخلاص کے ساتھ ”نیک اعمال“ کے رسالے کو فِل کرنا شروع کیجئے ، اللہ پاک نے چاہا تو ان کاموں کی برکت سے آپ کا کردار ستھرا اور پاکیزہ ہوجائے گا ، جس کا اچھا اثر آپ سے وابستہ لوگوں پربھی پڑےگا۔
اللہ پاک اپنے محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں ہمیں اپنے کردار کو دُرست کرنے اور اسے درست رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments