کیا نابالغی میں توڑا گیا روزہ قضا کرنا ہوگا؟  مع دیگر سوالات

دارُالافتاء اہلِ سنّت

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ مارچ2023

 ( 01 )  کیا نابالغی میں توڑا گیا روزہ قضا  کرنا ہوگا  ؟

 سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے معاشرے میں نابالغ بچوں سے اکثر روزے رکھوائے جاتے ہیں ، مگر روزے کے دوران بچوں کی بے چینی ، اضطراب اور شدتِ پیاس کے باعث اُن کا روزہ کھلوا دیا جاتا ہے۔ کیا بچوں کے یوں روزہ کھلوا دینے سے اُن پر بالغ ہونے کے بعد اُس روزے کے بدلےقضا روزہ رکھنا ضروری ہو گا  ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نابالغ بچہ روزہ رکھ کر توڑ دے تو اُس پر توڑے ہوئے روزے کے بدلے قضا روزہ رکھنا لازم نہیں ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 02 ) دورانِ تراویح تین بار سورۂ اخلاص پڑھنے کا حکم

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ تراویح کے دوران جب ختمِ قرآنِ پاک ہوتا ہے ، تو سورۂ اخلاص تین بار پڑھی جاتی ہے۔ اس حوالے سے شرعی راہنمائی فرما دیں کہ اس طرح کرنا کیسا ہے  ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

تراویح میں جب ختمِ قرآنِ پاک کیا جائے ، تو مستحب اور بہتر یہ ہے کہ سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھی جائے کہ اس سے ایک قرآنِ پاک کا ثواب حاصل ہوتا ہے ، کیونکہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سورۂ اخلاص کو تہائی قرآنِ پاک کے برابر قرار دیا ہے ، یعنی تین دفعہ سورۂ اخلاص پڑھنے سے ایک قرآنِ پاک کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ نیز نفل نماز کی ایک رکعت میں ایک ہی آیتِ کریمہ کی تکرار بھی نبیِّ پاک علیہ الصّلوٰۃ وا لسلام سے ثابت ہے اور چونکہ تراویح بھی نفل نماز ہے ، اس لیے اس میں سورۂ اخلاص کی تکرار بلاکراہت جائز ہے ، البتہ فرضوں میں بلاعذر کسی سورت کی تکرار مکروہ ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 03 )  کیا حدودِ شہر کے اختتام میں ٹول پلازہ معتبر ہے ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ شہر کی حدود جہاں سے ختم ہوتی ہے ، وہاں سے مسافت کا آغاز ہوتا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں کیا ٹول پلازہ سے اختتامِ حدود ہو جائے گا ؟ اِسی طرح کیا اگلے شہر کی حدود بھی ٹول پلازہ سے شروع ہو جائے گی ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شہر کی آبادی ختم ہونے یا شروع ہونے کا دارومدار ٹول پلازہ پر نہیں رکھا جا سکتا ، کیونکہ یہ ہر گز ضروری نہیں کہ ٹول پلازہ اُسی جگہ ہو کہ جہاں شرعاً شہر کی متصل آبادی ختم ہوتی ہو اور سفر کرنے والا ”شرعی مسافر“ بنے ، بلکہ بعض اوقات شہر کی متصل آبادی ختم ہونے کے بہت بعد ٹول پلازہ بنایا جاتا ہے۔

 ٹول پلازے شہر کی سرکاری حدود کے اعتبار سے بنائے جاتے ہیں اور اِس کی تعمیر ومقامِ تعیین کے اعتبار سے سرکاری محکمے کے خاص معیارات ( Standards )  ہیں ، جبکہ دوسری طرف سفر کے شرعی احکامات شہر کی آبادی سے متعلق ہوتے ہیں اور اِسی متصل آبادی کو شرعی نقطہ نظر سے”مِصر“ کہا جاتا ہے ، لہٰذا شرعی سفری احکامات کے لیے سرکاری حدود اور اُس کی بنیاد پر بنے ہوئے ٹول پلازوں کا اعتبار نہیں ہو گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 04 ) مالِ زکوٰۃ مدرسے  پر خرچ کرنے کا حکم

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ  کیامدرسے کے اخراجات و تعمیرات پر زکوٰۃ کی رقم یا اینٹیں ، سیمنٹ وغیرہ لگا سکتے ہیں اور اس کا کیا طریقۂ کار ہے  ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کسی فقیرِ شرعی کو مالک بنائے بغیر براہِ راست مدرسے کے اخراجات و تعمیرات پر زکوٰۃ کی رقم ، اینٹیں یا سیمنٹ وغیرہ لگانے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی ، کیونکہ تَمْلِیکِ فقیر یعنی شرعی فقیر کو زکوٰۃ کا مالک بنانا ، زکوٰۃ کا رُکن اور بنیادی شرط ہے ، جب کہ براہِ راست مدرسے کے اخراجات و تعمیرات پر زکوٰۃ کی رقم ، اینٹیں یا سیمنٹ وغیرہ لگانے میں فقیرِ شرعی کو مالک بنانا نہیں پایا جاتا ، لہٰذا جب بنیادی شرط ہی نہیں پائی جائے گی ، تو زکوٰۃ بھی ادا نہ ہو گی ، البتہ اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ کسی فقیر ِ شرعی کو بہ نیّتِ زکوٰۃ رقم یا دیگر سامان کامالک بنا دیا جائے ، پھر وہ اپنی طرف سے مدرسے کے جملہ مصارف میں استعمال کی اجازت دے دے ، تو اب اُس رقم اور سامان کو مدرسے کی تعمیرات وجملہ اخراجات پر لگا سکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 05 ) کیا زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کروائی جاسکتی ہے  ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ کیا زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کروائی جا سکتی ہے ، مثلاً ایک شخص اپنی زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کا کچھ سامان خریدے اور کھانا بنوائے ، پھر اپنے گھر میں اہلِ علاقہ کو  ( جس میں امیر و غریب سب شامل ہوں )  بلائے اور انہیں وہیں بٹھا کر افطاری کروائے اور کھانا بھی کھلا دے ، تو کیا اس طرح زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اچھی نیت کے ساتھ مسلمانوں کو افطاری کروانا اور کھانا کھلانا یقیناً ثواب کا باعث ہے ، احادیثِ طیبہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، لیکن سوال میں ذکر کردہ طریقے کے مطابق افطاری کے لئے زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا شرعاً جائز نہیں۔ زکوٰۃ غریبوں کے لئے ہے نہ کہ افطار پارٹیوں میں امیر و غریب سب میں اڑانے کا نام ہے۔ اس طرح کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی ، کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کسی مستحقِ زکوٰۃ کو مالِ زکوٰۃ کا مالک بنانا شرط ہے ، ورنہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ اب پوچھی گئی صورت میں ایک تو مستحقینِ زکوٰۃ کا فرق کئے بغیر امیر و غریب سبھی افطاری میں شامل ہو رہے ہیں اور دوسرا عام طور پر اس طرح کی افطار پارٹیوں میں کھانے والوں کو کھانے کا مالک نہیں بنایا جاتا ، بلکہ انہیں فقط کھانے کی اجازت دی جاتی ہے ، لہٰذا اس صورت میں زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی۔

زکوٰۃ اس شخص کو دے سکتے ہیں ، جس کے پاس سونا چاندی ، روپیہ پیسہ ، مالِ تجارت یا حاجتِ اصلیہ  ( یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے ، جیسے رہائش گاہ ، خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو ، سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی )  سے زائد سامان یا یہ سب مل کر اتنے نہ ہوں کہ جن کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر بنے ، نیز اس کا تعلق بنو ہاشم سے بھی نہ ہو۔ ( بنو ہاشم سے مراد حضرت عباس ، حضرت علی ، حضرت جعفر ، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبد المطلب رِضوانُ اللہِ علیہم اجمعین کی پاک اولادیں ہیں )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share