میں اخبارپڑھنے سے کیوں بچتا ہوں؟
از : شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
ایک مرتبہ کسی نے مجھے ایک پمفلٹ دیا جس میں کسی کی طرف کچھ عُیُوب منسوب کئے گئے تھے۔ میں نے وہ پمفلٹ پڑھے بغیر جیب میں رکھ لیا اور اس طرح غور کرنے لگا کہ اگر میں اس پمفلٹ کو پڑھوں گا تو کہیں گناہ تو نہیں ملے گا؟ پھر میں نے پمفلٹ دینے والے کی توجّہ اس پہلو کی طرف کرنے کے لئے ان سے پوچھا کہ اس کو پڑھنے میں کتنی نیکیاں ملیں گی؟ اس نے جواب دیا : نیکی توکوئی نہیں ملے گی۔ میں نے کہا کہ جس کے بارے میں یہ پمفلٹ ہے اگر اسے یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے مجھے یہ پمفلٹ دیا اور میں نے اسے پڑھا تو وہ خوش ہوگا یا ناراض؟ اس نے جواب دیا : ناراض ۔ میں نے کہا کہ جس پمفلٹ کے پڑھنے میں نقصان ہی نقصان ہو تو اسے پڑھنا ہی نہیں چاہئے ، لہٰذا میں نے وہ پمفلٹ ضائع کر دیا۔ اے عاشقانِ رسول! جس طرح کسی مسلمان میں پائی جانے والی بُرائیوں کا پیٹھ پیچھے تذکرہ کرنا غیبت جبکہ اس کے اندر ان بُرائیوں کے نہ پائے جانے کی صورت میں بیان کرنا بُہتان کہلاتا ہے ایسے ہی لکھ کر چھاپنے کا بھی مُعاملہ ہے۔ بِلااجازتِ شَرعی مسلمان کی کِردار کُشی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے ، چاہے وہ زبان سے بول کر ہو ، اَخبار کے ذریعے ہو یا پمفلٹ کی صورت میں۔ جو اَحکام زبان سے کہنے کے ہیں وہی قلم سے لکھنے کے بھی ہیں۔ جیسا کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَلْقَلَمُ اَحَدُ اللِّسَانَیْن (قلم بھی ایک زَبان ہے۔ ) جو زَبان سے کہے پر اَحکام ہیں وُہی قلم پر (بھی ہیں)۔ (فتاویٰ رضویہ ، 14 / 607) لہٰذا ایسے اَخبارات ، اِشتہارات اور پمفلٹس جو مسلمانوں کے عُیُوب و نَقائص پر مشتمل ہوں ان کے پڑھنے اور سننے سے اپنے آپ کو بچائیے۔ میری معلومات کے مطابق فی زمانہ تقریباً اَخبارات بے پردہ عورتوں کی تَصاویر اور گناہوں بھری تحریرات سے پُر ہوتے ہیں ۔ آج کل شاید ہی کوئی اَخبار ایسا ہو جس میں مسلمان کی عزّت کا تحفُّظ ہو ، کبھی کوئی مسلمان وزیرِ اعظم ہَدفِ تنقید ہوتا ہے تو کبھی صَدر ، کبھی وزیرِ اعلیٰ کی شامت آتی ہے تو کبھی گورنر کی ، اَلغرض سیاستدان ہو یا عام مسلمان اَخبارات میں عموماً سب کی عزّت کی دَھجیاں اُڑائی جاتی ہیں ، بِالخصوص الیکشن کے دِنوں میں کچھ لوگ تہمتوں اور غیبتوں سے بھرپور بیانات داغتے ، اَخبارات میں چھاپتے اور خوب کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا اِنتہائی دُشوار ہوتا ہے ۔ انہی وُجُوہات کی بِنا پر میں اَخبارات ، غیرشرعی اِشتہارات اور گناہوں بھرے پمفلٹس پڑھنے سے بچتا ہوں۔ ہاں! اگر کسی کی بُرائی سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا اَندیشہ ہو تو شرعی اجازت اور اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ لوگوں کو اس کے نقصان سے بچانے کے لئے گفتگو یا تحریر وغیرہ میں بَقَدَرِ ضَرورت صِرف اُسی بُرائی کا تذکِرہ کیا جا سکتا ہے۔ اے کاش! ہر مسلمان اپنے عیبوں پر نظر رکھے ، دوسروں کے عیوب بیان کرنے یا لکھ کر چھاپنے کے بجائے ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی جان و مال اور عزّت کا مُحافظ بن جائے۔
اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے عیبوں کو تلاش کر کر کے انہیں دورکرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(نوٹ : یہ مضمون رِسالہ : فیضانِ مدنی مذاکرہ (قسط : 33) “ بُرائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دیجیے “ کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مزید مشورے لے کر پیش کیا جارہا ہے۔ )
Comments