ہماری کمزوریاں
کنفیوژن
* محمد آصف عطاری مدنی
ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ
بحری جہاز کے کیپٹن کی سلیکشن کے لئے انٹرویو کا سلسلہ جاری تھا ، سلیکشن کمیٹی کا سربراہ ہر امیدوار سے ایک سُوال ضرور پوچھتا کہ اگر کبھی بپھرے ہوئے سمندری طوفان میں جہاز چھوڑ کر نکلنا پڑے تو آپ اپنی اور عملے کی جانیں بچانے کے لئے کونسی لائف بوٹ کا انتخاب کریں گے ، انجن سے چلنے والی یا چپوؤں سے چلنے والی کشتی کا؟ اس کے جواب میں امیدوار کنفیوژن (اُلجھن) کا شکار ہوجاتا پھر وہ جو جواب دیتا تو سلیکشن کمیٹی کی طرف سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ خاموش ہوکر رہ جاتا ، یہ سُوال آخری امیدوار (جو تمام امیدواروں میں سینیئر تھا ، اس) سے پوچھا گیا تو اس نے بغیر کنفیوژ ہوئے بڑے اعتماد سے جواب دیا : چپوؤں والی کشتی کا۔ سلیکشن کمیٹی کے ایک ممبر نے اس کی وجہ پوچھی تو امیدوار نے جواب دیا : اس لئے کہ انجن کی طاقت محدود ہوتی ہے جبکہ انسان کے اندر ربِّ کریم نے کتنی طاقت رکھی ہے یہ خود انسان کو بھی معلوم نہیں! اس لئے انسان غیرمعمولی صورتِ حال میں غیر معمولی کارکردگی دکھا سکتا ہے چنانچہ میری رائے اور تجربہ ہے کہ طوفان میں انسانی طاقت زیادہ قابلِ بھروسا ہوتی ہے ، اس واضح جواب کے بعد سلیکشن کمیٹی نے اس امیدوار کو بطورِ کیپٹن سلیکٹ کرلیا۔
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! ہم بھی اپنی زندگی میں کئی معاملات میں کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں ، اس کنفیوژن كی كيفيت میں ہمارے خیالات اُلجھ جاتے ہیں ، صحیح اور غلط ، حقیقی اور افسانوی کا امتیاز مشکل ہوجاتا ہے ، اس خَلط مَلط کی وجہ سے انسان کسی واضح فیصلے پر نہیں پہنچ پاتا مثلاًبچّے کو کون سے اسکول یا جامعہ میں داخل کروائیں؟ سائنس کے سبجیکٹ لیں یا آرٹس کے؟ کاروبار کریں یا نوکری؟ فلاں شخص پر رقم کے حوالے سے بھروسا کریں یا نہیں؟ ٹرین سے سفر کریں یا بس سے؟ کرائے کا مکان کون سے علاقے میں لیا جائے؟ اس رشتے کے لئے ہاں کہی جائے یا نہیں؟وغیرہ۔
ٹھوس بنیاد پر رائے کی تبدیلی کوئی بُری بات نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ایسےافراد بھی پائے جاتے ہیں جن کی رائے ایسی کنفیوژ ہوتی ہے کہ جو چیز کچھ دیر پہلے انہیں زہر لگتی تھی تھوڑی دیر بعد وہ انہیں شہد دکھائی دینے لگتی ہے ، وہ شخص جسے وہ مجرم ڈکلئیر کردیتے ہیں تھوڑی دیر بعد انہیں بےقصور لگنے لگتا ہے۔ ایسا کنفیوژڈ شخص اگر کوئی فیصلہ کر بھی لیتا ہے تو اپنی رائے پر قائم نہیں رہتا ، لہٰذا! دوسرے لوگ ان کے ساتھ کاروبار کرنے یا انہیں ملازمت پر رکھنے سے کتراتے ہیں۔
کنفیوژن کا حل : کنفیوژن سے نکلنے کے لئے چند چیزیں پیشِ نظر رکھنا بہت مُفید ہے :
(1)خود تجربہ کرکے ٹھوکر کھانے سے بہتر ہے کہ کسی تجربہ کار سے مشورہ کرلیا جائے کیونکہ تجربہ کار (Expert) لوگوں سے مشورہ (Counselling) کرنے سے عموماً ایسا پہلو سامنے آجاتا ہے جو پہلے ہماری نگاہ میں نہیں ہوتا۔
(2)اچھی طرح غور کرکے فیصلہ کیجئے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیجئے ، اللہ پاک فرماتا ہے : (وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِۙ(۲۱۷)) تَرجَمۂ کنزُ العرفان : اور اس پر بھروسہ کرو جو عزت والا ، رحم فرمانے والا ہے۔ (پ19 ، الشعراء : 217) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) حضرتِ علّامہ سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں : یعنی تم اپنے تمام کام اس کو تفویض (یعنی سپرد)کرو۔ (خزائن العرفان ، ص697)
اپنا معاملہ اللہ کریم کے حوالے کرنے کا فائدہ : حضرت امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جب تم اپنا معاملہ اللہ پاک کے سپرد کردو گے اور اس سے سُوال کرو گے کہ وہ تمہارے لئے ایسی شے کا انتخاب کرے جس میں تمہاری بہتری ہو تو ضرور تمہیں خیر اور دُرستی ہی نصیب ہوگی اور تم نیک کام سے ہی ہمکنار ہوگے۔ اللہ پاک نے اپنے ایک صالح بندے کے الفاظ نقل کرتے ہوئے فرمایا : (وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ(۴۴) فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ(۴۵)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور میں اپنے کام اللہ کو سونپتا ہوں بے شک اللہ بندوں کو دیکھتا ہے تو اللہ نے اسے بچالیا ان کے مَکر کی بُرائیوں سے اور فرعون والوں کو بُرے عذاب نے آگھیرا۔ (پ24 ، المؤمن : 44 ، 45) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تم دیکھتے نہیں کہ ربِّ کریم نے کس وضاحت سے اپنے معاملات اس کے حوالے کرنے پر حفاظت ، دشمنوں کے خلاف اِمداد اور بندے کے اپنی مراد میں کامیاب ہونے کا ذکر فرمایا ہے! اس میں خوب غور کرو ، اللہ تمہیں بھلائی کی توفیق بخشے۔ (منھاج العابدین ، ص114)
(3)بعض اوقات دوچیزوں میں انتخاب (Selection) کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور دونوں دُرست ہوتی ہیں ، ایسے میں فیصلہ نہ ہورہا ہو تو استخارہ کرلیجئے۔ حضورِ پاک ، صاحبِ لَولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ ، وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ ، وَلَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ یعنی جو اِستخارہ کرے وہ نقصان میں نہ رہے گا ، جو مُشاورت سے کام کرے وہ پشیمان نہ ہوگا اور جس نے میانہ رَوی اختیار کی وہ محتاج نہ ہوگا۔ (مجمع الزوائد ، 2 / 566 ، حدیث : 3670) استخارے کا طریقہ جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب “ بَدشُگونی “ کا صفحہ47تا 53 پڑھ لیجئے۔
اللہ کریم ہمیں خوامخواہ کی کنفیوژن سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments