باتیں مرے حضور کی
جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی
* کاشف شہزاد عطاری
ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ
سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آپ کے عظمت والے رب نے ایسے کثیر فضائل اور امتیازات عطا فرمائے ہیں جن کے سبب آپ دیگر لوگوں سے ممتاز اور منفرد ہیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی 3 خصوصی شانیں پیشِ خدمت ہیں ، اِنْ شَآءَ اللہ انہیں پڑھ کر آپ بے ساختہ پکار اٹھیں گے :
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی
(1)نسب مُنْقَطِع نہ ہوگا : قیامت کے دن نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ دیگر تمام لوگوں کے نسبی اور سُسرالی رشتے مُنْقَطِع (Break)ہوجائیں گے۔ ([i])
اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے : ( فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىٕذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ(۱۰۱)) تَرجَمۂ کنز العرفان : تو جب صُور میں پھونک ماری جائے گی تو نہ ان کے درمیان رشتے رہیں گے اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے۔ ([ii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : كُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِلَّا سَبَبِيْ وَنَسَبِيْ فَاِنَّهَا مَوْصُوْلَةٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ یعنی ہر رشتہ ا ور ہرنسب قیامت کے دن ٹوٹ جائے گا مگر میرا رشتہ ا ور نسب باقی رہے گا کیونکہ وہ دنیا و آخرت میں جوڑا ہوا ہے۔
حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس فرمانِ عالیشان کی برکتیں پانے اور حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ رشتے داری قائم کرنے کے لئے اُمِّ کُلثوم بنتِ علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا۔ ([iii])
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : روزِ قیامت سب نسب اور رشتے مُنْقَطِع ہوجائیں گے ، کوئی نہ پوچھے گا کہ فلاں کس کا بیٹا یا پوتا ہے ، مگر صاحبِ لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نسبِ پاک اور آپ سے رشتہ و علاقہ وہ مضبوط تعلق ہے جو کبھی مُنْقَطِع نہ ہوگا۔ ([iv])
(2)سب سے بلند نظر آتے : سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قد مبارک درمیانہ(Medium)تھا۔ اس کے باوجود جب کسی لمبے قد والے شخص کے ساتھ چلتے تو اس سے طویل نظر آتے ، نیز جب کسی مجلس میں تشریف رکھتے تو مبارک کندھے (Blessed Shoulder) تمام حاضرین سے بلند ہوتے۔ ([v])
اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ چھوٹے قد والے ، جب اکیلے چلتے تو درمیانی قد والے نظر آتے تھے۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی لمبے قد والا شخص چلتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے بلند نظر آتے۔ بعض اوقات دو لمبے قد والے آدمی آپ کے ساتھ چلتے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان دونوں سے بلند نظر آتے ، پھر جب وہ دونوں جدا ہوجاتے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درمیانی قد والے نظر آتے تھے۔ ([vi])
رئیسُ الْمُتَکَلِّمین مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جب آپ ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کھڑے ہوتے ىا چلتے ، قدِ زىبا باوجود کمال اِعتدال کے سب سے زىادہ بلند نظر آتا اور جب مَسندِ اِرشاد و ہدایت پر جلوہ فرماتے تمام جماعت مىں سَرمبارک اونچا معلوم ہوتا۔ کسى طرح سے غىرتِ الٰہى نے آپ کا ہمسر (یعنی برابر) پىدا نہ کىا۔ ([vii])
اے عاشقانِ رسول! سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس خصوصی شان کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ جس طرح باطنی فضائل و کمالات میں کوئی آپ سے بڑھ کر نہیں ہے اسی طرح ظاہری صورت میں بھی کوئی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑا معلوم نہ ہو۔ ([viii])
شیخُ الحدیث والتفسیر حضرت علّامہ مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اتفاق ہے کہ آپ مِیانہ قد (یعنی درمیانے قد والے)تھے لیکن یہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی معجزانہ شان ہے کہ میانہ قد ہونے کے باوجود اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا سر مبارک سب سے زیادہ اونچا نظر آتا تھا۔ ([ix])
ترا قد تو نادرِ دَہر ہے ، کوئی مثل ہو تو مثال دے
نہیں گُل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سروِ چماں نہیں([x])
(3)سلسلۂ نسب بیٹی سے جاری ہوا : سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بیٹیوں کی اولاد آپ کی اولاد کہلاتی ہے۔ ([xi])
پیارے اسلامی بھائیو!اولاد کی نسبت باپ کی طرف کی جاتی ہے لیکن سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کی شہزادیوں بالخصوص خاتونِ جنّت حضرت سیّدتنا فاطمہ زَہرا رضی اللہ عنہا کی پاک اولاد اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف منسوب ہے۔
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : كُلُّ بَنِيْ آدَمَ يَنْتَمُوْنَ اِلٰى عَصَبَةٍ اِلَّا وَلَدَ فَاطِمَةَ فَاَنَا وَلِيُّهُمْ واَنَا عَصَبَتُهُمیعنی تمام انسان اپنے ددھیال کی طرف منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کی اولاد کے ، کیونکہ ان کا ولی اور سرپرست میں ہوں۔ ([xii])
اے عاشقانِ رسول! عام طور پر کسی شخص کی نسل اس کےبیٹوں اور پوتوں سے چلتی ہے لیکن رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نسل آپ کے دونوں نواسوں امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما سے جاری ہوئی۔ کئی احادیث میں سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حَسَنَیْنِ کَرِیْمَیْن رضی اللہ عنہما کو اپنا بیٹا قرار دیا۔
حضرت سیّدُنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے متعلق ارشاد فرمایا : اِبْنِیْ ھٰذَا سَیِّدٌ یعنی میرا یہ بیٹا سردار ہے۔([xiii])
ایک روایت میں فرمایا گیا : ھٰذَانِ ابْنَايَ یہ دونوں (یعنی حسن اور حسین) میرے بیٹے ہیں۔ ([xiv])
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کی اولاد حضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی نسل ہے اس سے حضور کی نسل چلی گویا حسن و حسین ( رضی اللہ عنہما) حضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی نسل بھی ہیں اور نسل کی اصل بھی ، ورنہ نسب باپ سے ہوتا ہے نہ کہ ماں سے۔ ([xv])
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا([xvi])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments