جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی / ثنائے سرکار ہے وظیفہ

باتیں مرے حضور کی

جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی

*   کاشف شہزاد عطاری

ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ

سرکارِ دو عالَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کو آپ کے عظمت والے رب نے ایسے کثیر فضائل اور امتیازات عطا فرمائے ہیں جن کے سبب آپ دیگر لوگوں سے ممتاز اور منفرد ہیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی 3 خصوصی شانیں پیشِ خدمت ہیں ، اِنْ شَآءَ اللہ انہیں پڑھ کر آپ بے ساختہ پکار اٹھیں گے :

اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی

جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی

(1)نسب مُنْقَطِع نہ ہوگا : قیامت کے دن نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے  علاوہ دیگر تمام لوگوں کے نسبی اور سُسرالی رشتے مُنْقَطِع (Break)ہوجائیں گے۔ ([i])

اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے : ( فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىٕذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ(۱۰۱)) تَرجَمۂ کنز العرفان : تو جب صُور میں پھونک ماری جائے گی تو نہ ان کے درمیان  رشتے  رہیں گے اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے۔ ([ii])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فرمانِ مصطفٰے   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   ہے : كُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِلَّا سَبَبِيْ وَنَسَبِيْ فَاِنَّهَا مَوْصُوْلَةٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ یعنی ہر رشتہ ا ور  ہرنسب  قیامت کے دن ٹوٹ جائے گا  مگر میرا رشتہ ا ور نسب باقی رہے گا  کیونکہ وہ دنیا و آخرت میں جوڑا ہوا ہے۔

حضرت سیّدُنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  نے اس فرمانِ عالیشان  کی برکتیں پانے اور حُضور   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے ساتھ رشتے داری قائم کرنے کے لئے اُمِّ کُلثوم بنتِ علیُّ المرتضیٰ   رضی اللہ عنہما  سے نکاح کیا۔ ([iii])

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان   رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : روزِ قیامت سب نسب اور رشتے مُنْقَطِع ہوجائیں گے ، کوئی نہ پوچھے گا کہ فلاں کس کا بیٹا یا پوتا ہے ، مگر صاحبِ لولاک   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا نسبِ پاک اور آپ سے رشتہ و علاقہ وہ مضبوط تعلق ہے جو کبھی مُنْقَطِع نہ ہوگا۔ ([iv])

(2)سب سے بلند نظر آتے : سرکارِ دوعالَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا قد مبارک درمیانہ(Medium)تھا۔ اس کے باوجود جب کسی لمبے قد والے شخص کے ساتھ چلتے تو اس سے  طویل نظر آتے ، نیز جب کسی مجلس میں تشریف رکھتے تو مبارک کندھے (Blessed Shoulder) تمام حاضرین سے بلند ہوتے۔ ([v])

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں : اللہ کے حبیب   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ چھوٹے قد والے ، جب اکیلے چلتے تو درمیانی قد والے نظر آتے تھے۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی لمبے قد والا شخص چلتا تو آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   اس سے بلند نظر آتے۔ بعض اوقات دو لمبے قد والے آدمی آپ کے ساتھ چلتے تو آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   ان دونوں سے بلند نظر آتے ، پھر جب وہ دونوں جدا ہوجاتے تو آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   درمیانی قد والے نظر آتے تھے۔ ([vi])

رئیسُ الْمُتَکَلِّمین مولانا نقی علی خان  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : جب آپ (  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ) کھڑے ہوتے ىا چلتے ، قدِ زىبا باوجود کمال اِعتدال کے سب سے زىادہ بلند نظر آتا اور جب مَسندِ اِرشاد و ہدایت پر جلوہ فرماتے تمام جماعت مىں سَرمبارک اونچا معلوم ہوتا۔ کسى طرح سے غىرتِ الٰہى نے آپ کا ہمسر (یعنی برابر) پىدا نہ کىا۔ ([vii])

اے عاشقانِ رسول! سرکارِ مدینہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی اس خصوصی شان کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ جس طرح باطنی فضائل و کمالات میں کوئی آپ سے بڑھ کر نہیں ہے اسی طرح ظاہری صورت میں بھی کوئی آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے بڑا معلوم نہ ہو۔ ([viii])

شیخُ الحدیث والتفسیر حضرت علّامہ مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اتفاق ہے کہ آپ مِیانہ قد (یعنی درمیانے قد والے)تھے لیکن یہ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  کی معجزانہ شان ہے کہ میانہ قد ہونے کے باوجود اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا سر مبارک سب سے زیادہ اونچا نظر آتا تھا۔ ([ix])

ترا قد تو نادرِ دَہر ہے ، کوئی مثل ہو تو مثال دے

نہیں گُل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سروِ چماں نہیں([x])

(3)سلسلۂ نسب بیٹی سے جاری ہوا : سرکارِ دو عالَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی بیٹیوں کی اولاد آپ کی اولاد کہلاتی ہے۔ ([xi])

پیارے اسلامی بھائیو!اولاد کی نسبت باپ کی طرف کی جاتی ہے لیکن سرکارِ مدینہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کی شہزادیوں بالخصوص خاتونِ جنّت حضرت سیّدتنا فاطمہ زَہرا   رضی اللہ عنہا  کی پاک اولاد اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف منسوب ہے۔

فرمانِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : كُلُّ بَنِيْ آدَمَ يَنْتَمُوْنَ اِلٰى عَصَبَةٍ  اِلَّا وَلَدَ فَاطِمَةَ  فَاَنَا وَلِيُّهُمْ واَنَا عَصَبَتُهُمیعنی تمام انسان اپنے ددھیال کی طرف منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کی اولاد کے ، کیونکہ ان کا ولی اور سرپرست میں ہوں۔ ([xii])

اے عاشقانِ رسول! عام طور پر کسی شخص کی نسل اس کےبیٹوں اور پوتوں سے چلتی ہے لیکن رحمتِ عالَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی مبارک نسل  آپ کے دونوں نواسوں امام حسن اور امام حسین   رضی اللہ عنہما  سے جاری ہوئی۔ کئی احادیث میں سرکارِ مدینہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے حَسَنَیْنِ کَرِیْمَیْن   رضی اللہ عنہما  کو اپنا بیٹا قرار دیا۔

حضرت سیّدُنا امام حسن مجتبیٰ  رضی اللہ عنہ  سے متعلق ارشاد فرمایا : اِبْنِیْ  ھٰذَا سَیِّدٌ یعنی میرا یہ بیٹا سردار ہے۔([xiii])

ایک روایت میں فرمایا گیا : ھٰذَانِ ابْنَايَ یہ دونوں (یعنی حسن اور حسین) میرے بیٹے ہیں۔ ([xiv])

مفتی احمد یار خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : خیال رہے کہ حضرت فاطمہ  رضی الله عنہا  کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کی اولاد حضور (  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ) کی نسل ہے اس سے حضور کی نسل چلی گویا حسن و حسین (  رضی اللہ عنہما) حضور (  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ) کی نسل بھی ہیں اور نسل کی اصل بھی ، ورنہ نسب باپ سے ہوتا ہے نہ کہ ماں سے۔ ([xv])

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا([xvi])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])   مواھب لدنیہ ، 2 / 291

([ii])   پ18 ، المؤمنون : 101

([iii])   مجمع الزوائد ، 8 / 398 ، حدیث : 13827

([iv])   مطلع القمرین ، ص63 بتغیر

([v])   انموذج اللبیب ، ص213

([vi])   تاریخِ ابن عساکر ، 3 / 356

([vii])   الکلام الاوضح ، ص181

([viii])   زرقانی علی الموا ھب ، 7 / 199

([ix])   سیرتِ مصطفیٰ ، ص567

([x])   حدائقِ بخشش ، ص109

([xi])   مواھب لدنیہ ، 2 / 291

([xii])   کنزالعمال ، جز6 ، 12 / 53 ، حدیث : 34261

([xiii])   بخاری ، 2 / 509 ، حدیث : 3629

([xiv])   ترمذی ، 5 / 427 ، حدیث : 3794

([xv])   مراٰۃ المناجیح ، 8 / 476

([xvi])   حدائقِ بخشش ، ص246


Share

جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی / ثنائے سرکار ہے وظیفہ

باتیں میرے      حضور کی

 ثنائے سرکار ہے وظیفہ

*   ابوعاطر عطاری مدنی

ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ

اس دُنیائے فانی میں مخلوق کو خالِق سے مِلانے کے لئے بہت سے انبیائے کرام و رُسُل عِظَام علیہمُ السَّلام  تشریف لائے۔ اللہ پاک نے ان میں سے ہر نبی و رسول کوکئی کمالات و معجزات سے نوازا۔ مثلاً کسی نبی کو حُسْن و جَمال میں کمال عَطا فرمایا تو کسی کو جاہ و جَلال (شان و شوکت) میں۔ کسی کو سَلْطَنَت و مال سے نوازا تو کسی کو رِفْعَت و عَظَمَ  ت کی دولتِ لازوال سے ، مگر رَبِّ لَمْ یَزَل نے جب اپنے محبوبِ بے مِثال  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مبعوث فرمایا تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو نہ صِرف حُسْن و جَمال سے نوازا بلکہ جاہ و جَلال اور جُود و نَوَال (عطا و بخشش) کی دولت سے بھی خوب مالا مال فرمایا۔ سَیِّدُ الْـمَحْبُوبِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذِکْر نُورِ اِیمان وسُرورِ جان ہے اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذِکْر بِعَیْـنِہٖ ذِکْرِ رحمٰن ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے :

(وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴))   تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ ([1])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ اللہ آپ کا رتبہ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم                                                             پڑھتی ہے دنیا رتبے کا خطبہ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم

روایت میں ہے کہ اس آیتِ کریمہ کے نُزول کے بعد سیِّدُنا جبرائیل امین  علیہ السَّلام  حاضرِ بارگاہ ہوئے اور عرض کی : آپ کا ربّ فرماتا ہے : کیا تم جانتے ہو کہ میں نے کیسے بُلند کیا تمہارے لئے تمہارا ذِکْر؟ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جواب دیا : اَللهُ اَعْلَم۔ ارشاد ہوا : اے مَحْبُوب میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یادکیا کہ جس نے تمہارا ذِکْر کیا بے شک اس نے میرا ذِکْر کیا۔ ([2])


سلطانِ جَہاں محبوبِ خُدا تِری شان و شوکت کیا کہنا

ہر شے پہ لِکھا ہے نام تِرا ، تِرے ذِکْر کی رِفْعَت کیا کہنا

ہم اور آپ حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شانِ بے مثال کو بھَلا کیا سمجھ سکتے ہیں؟ حضراتِ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہ م جو دِن رات سَفَر و حَضَر میں ماہِ نُبوّت کی تجلّیاں دیکھتے رہے انہوں نےمَحْبُوبِ خدا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے جَمالِ بے مِثال کے فَضْل و کمال کو جس طرح نعتیہ اشعار میں بیان کیا ہے وہ بھی اپنی مِثال آپ ہے۔

حضرت سیّدُنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ  کی کہی ہوئی نعتِ پاک کے دو شعر مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :

(1)رَسُوْلٌ عَظِیْمُ الشَّانِ یَتْلُوْ کِتَابَہُ

لَہُ کُلُّ مَنْ یَّبْغِیْ التِّلاَوَۃَوَامِقٌ

(2)مُحَبٌّ عَلَیْہِ کُلَّ یَوْمٍ طَلَاوۃٌ

وَاِنْ قَالَ قَوْلًا فَالَّذِیْ قَالَ صَادِق

ترجمہ : (1)وہ عظیمُ المرتبت رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جو اپنی کتاب کی تلاوت فرماتے ہیں کہ ہر پڑھنے والا اُس (کتاب) کا عاشق ہوجائے (2)وہ محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہیں جن کیلئے ہر روز تَر و تازگی وخوبصورتی ہے اوراگر کوئی بات کہیں تو یقیناً وہ سچی ہے۔ ([iii])

حضرت سیِّدُنا حسّان بن ثابت  رضی اللہ عنہ  نے اپنے قصیدہ میں “ جَمالِ نبوّت “ کی شانِ بے مِثال کو اشعار کی صورت میں یوں بیان فرمایا :

وَاَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ          وَاَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ

( یارسولَ اللہ!) آپ سے زِیادَہ حُسْن و جَمال والا میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہےنہ آپ سے زِیادَہ خوبصورت کسی عورت نے جَنا ہے۔

خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِ عَیْبٍ                        کَاَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ

آپ ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا آپ ایسے ہی پیدا کئے گئے جیسے آپ چاہتے تھے۔ ([iv])

مکّی مَدَنی سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رِضاعی (یعنی دودھ شریک) بہن حضرت سیِّدَتُنا شَیْماء   رضی اللہ عنہا  سرورِ کائنات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے اپنی مَحبَّت کا اظہار یوں فرماتی ہیں :

مُـحَمَّدٌ خَيْرُ الْـبَشَرْ                                                      مِـمَّنْ مَّضٰى وَمَنْ غَبَـرْ

مَنْ حَجَّ مِنْهُمْ اَوِ اعْتَمَرْ                                    اَحْسَنُ مِنْ وَّجْهِ الْـقَمَرْ

مِنْ كُلِّ اُنْثٰى وَذَكَـرْ                                                                                                مِنْ كُلِّ مَشْبُوبٍ اَغَـرْ

 (1)یعنی حضرت سیّدنا محمد مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تمام انسانوں سے افضل ہیں چاہے وہ پہلے گزَر چکے یا مستقبل میں آنے والے ہیں (2)آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تمام حج و عمرہ کرنے والوں سے بھی افضل ہیں اور چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں (3)آپ تمام مَردوں اور عورتوں سے زیادہ حسن و جمال والے اور سب نوجوانوں سے بڑھ کر غیرت والے ہیں۔ ([v])

اُمُّ الْمؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ   رضی اللہ عنہا  سے نعتیہ کلام پر مُشْتَمِل یہ اَشعار مَرْوِی ہیں :

فَلَوْ سَمِعُوْا فِیْ مِصْرَ اَوْصَافَ خَدِّہٖ

لَمَا بَذَلُوْا فِیْ سَوْمِ يُوْسُفَ مِنْ نَّقْدٍ

لَـوَّامِیْ زُلَيْخَا لَوْ رَائَيْنَ جَبِيْنَهٗ

لَآثَرْنَ بِالْـقَطْعِ الْـقُلُوْبِ عَلَی الاَیْدِی

اگرآپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے رُخسار مُبارَک کے اَوصَاف اَہْلِ مِصر سن لیتے تو سَیِّدُنا یوسُف  علیہ السَّلام  کی قیمت لگانے میں سیم و زر نہ بہاتے اور اگر زُلیخا کو مَلَامَت کرنے والی عورتیں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی جبینِ اَنْوَر دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دِل کاٹنے کو ترجیح دیتیں۔ ([vi])

ثنائے سرکار کا یہ خوب صورت سلسلہ آگے چلا بعد میں بھی آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مدح سرائی میں نعتیں کہیں گئیں ، اس کی چند مثالیں سُنتے ہیں :

ایک شاعر نے کمالاتِ مصطفےٰکو اس نعتیہ شعر میں یوں بیان  کرنے کی کوشش کی ہے :

حُسنِ یُوسُف دَمِ عیسیٰ یَدِ بَیضَا داری

آنچہ خُوباں ہَمہ دَارَنْد تُو تنہا داری

یعنی سرورِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حضرت سَیِّدُنا یُوسُف  علیہ السَّلام  کا حُسْن ، حضرت سیِّدُنا عیسیٰ  علیہ السَّلام  کی پھونک اور روشن ہاتھ رکھتے ہیں ، (یہی نہیں بلکہ) جو کمالات دیگرسارے نبی و رسول رکھتے تھے وہ آپ اکیلے رکھتے ہیں۔

امام بوصیری  رحمۃ اللہ علیہ  اپنے نعتیہ اشعار میں  فرماتے ہیں :

هُوَ الْحَبِيْبُ الَّذِيْ تُرْجَى شَفَاعَتُهٗ

لِكُلِّ هَوْلٍ مِّنَ الأَهْوَالِ مُقْتَحِمِ

مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الْكَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ

وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَمِ

ترجمہ : (1)وہی حبیب لبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہیں کہ آنے والی ہر شدت ومصیبت میں ان سے شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔ (2)حضرت محمد  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  دنیا وآخرت ، جن و انس ، اور عرب وعجم دونوں فریقوں کے سردار ہیں۔

اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  کی نعتیہ شاعری قراٰن و حدیث سے مطابقت ، خوب صورت الفاظ کے انتخاب اور صحابہ ، تابعین اور جلیلُ القدر اولیا و علما کے نعتیہ کلام کا عکسِ جمیل ہے۔ آپ  رحمۃ اللہ علیہ  نےاپنے نعتیہ دیوان “ حدائقِ بخشش “ میں فصاحت وبلاغت کے وہ دریا بہائے کہ زمانے کے کئی نامی گرامی شاعر و ادیب ، حدائقِ بخشش کامطالعہ کرتے ہیں تو ان کی عقلیں دَنگ ر ہ جاتی ہیں اور وہ داد و  تحسین دئیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ امامِ اہلِ سنّت نے اپنی مختلف نعتوں میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے جسمِ اقدس کے مختلف  اعضا(Body Parts) کا ذکرِ خیر کچھ یوں بیان فرمایا ہے ۔

مُبارک بالوں کی شان

ہم سیہ کاروں پہ یارَبّ تَپشِ مَحشر میں

سایہ اَفگن ہوں تِرے پیارے کے پیارے گیسو([vii])

نورانی پیشانی کی عظمت

جس کے ماتھے شَفاعت کا سہرا رہا

اس جَبینِ سَعادَت پہ لاکھوں سلام([viii])

مُبارک ابروؤں کی شان

جن کے سجدے کو مِحرابِ کعبہ جُھکی

ان بَھووں کی لطافت پہ لاکھوں سلام([ix])

مقدس آنکھوں کا حسن

سُرمگیں آنکھیں حَریمِ حق کے وہ مُشکیں غَزال

ہے فَضائے لامکاں تک جن کا رَمْنا نُور کا([x])

 ناک مبارک کا مقام و مرتبہ

بینیِ پُرنُور پر رَخْشاں ہے بُکَّہ نُور کا

ہے لِواءُ الْحَمْد پر اُڑتا پَھریرا نُور کا([xi])

عظمت و شان والے کا ن

دُور و نزدیک کے سُننے والے وہ کان

کانِ لَعلِ کرامَت پہ لاکھوں سلام([xii])

مبارک منہ کی شان

وہ دَہن جس کی ہر بات وَحْیِ خُدا

چشمۂ عِلم و حِکمت پہ لاکھوں سلام([xiii])

تھوک مبارک کا معجزہ

جس کے پانی سے شاداب جان و جِناں

اس دَہن کی طَراوت پہ لاکھوں سلام

جس سے کھاری کُنویں شِیرۂ جاں بنے

اُس زُلالِ حَلاوت پہ لاکھوں سلام([xiv])

مقدس کلام اورزبان کی شان

وہ زباں جس کو سب کُن کی کُنجی کہیں

اُس کی نافِذ حکومت پہ لاکھوں سلام

اس کی باتوں کی لَذّت پہ لاکھوں دُرُود

اس کے خُطبے کی ہیبت پہ لاکھوں سلام([xv])

عظمت والے ہاتھوں کا مقام

جن کو سُوئے آسماں پھیلا کے جل تَھل بھر دئیے

صَدْقہ اُن ہاتھوں کا پیارے ہم کو بھی دَرکار ہے([xvi])

نورانی قدموں کی عظمت

گورے گورے پاؤں چمکا دو خُدا کے واسطے

نُور کا تڑکا ہو پیارے گور کی شب تار ہے([xvii])

اللہ پاک سے دعاہے کہ ہمیں بھی ثنائے سرکارکو وظیفہ بنانے کی توفیق عطافرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   ذمہ دار شعبہ فیضانِ اولیاو علما ، المدینۃالعلمیہ کراچی



([1])پ30 ، الم نشرح : 4

([2])ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ، 23 / 752 بحوالہ الشفا ، 1 / 20ملخصاً

([iii])سیرت ابن اسحاق ، ص180

([iv])دیوان حسان بن ثابت ، ص21

([v])سبل الهدىٰ والرشاد ، 1 / 380 ، 381

([vi])زرقانی علی المواھب ، 4 / 390 ، ‫‫تاریخ الخمیس ، 1 / 70

([vii])حدائقِ بخشش ، ص119

([viii])سابقہ حوالہ ، ص300

([ix])سابقہ حوالہ

([x])سابقہ حوالہ ، ص248

([xi])سابقہ حوالہ ، ص243

([xii])سابقہ حوالہ ، ص300

([xiii])سابقہ حوالہ ، ص302

([xiv])سابقہ حوالہ

([xv])سابقہ حوالہ

([xvi])سابقہ حوالہ ، ص176

([xvii])سابقہ حوالہ ، ص177


Share