کتابِ زندگی
رُموزِ اوقاف
* ابورجب عطاری مدنی
ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ
مُنیر صاحب اردو کے سینیئر ٹیچر تھے ، انہوں نے کلاس 6 میں پڑھاتے ہوئے جب یہ کہا کہ اچھی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی علامتوں کا خیال رکھا جائے تو دانش نے فوراً سوال کیا : سر! اگر ان علامتوں کو تفصیل سے بیان کردیں تو مہربانی ہوگی۔ مُنیر صاحب نے مارکر سنبھالا اور وائٹ بورڈ کی مدد سے طلبہ کو سمجھانا شروع کیا :
عزیز طلبہ! جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو کہیں ٹھہرتے ہیں اور کہیں نہیں ٹھہرتے ، اسی طرح مختلف کیفیات مثلاً نرمی ، سختی ، خوشی ، غم ، تعجب (حیرانگی) ، اِسْتِفْہام(سوال) خوف اور غصہ وغیرہ کا اظہار بولنے کی رفتار اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ سے کرتے ہیں ، تحریر میں یہی کام مختلف علامتوں سے لیا جاتا ہے جنہیں رُموز ِ اوقاف (Punctuation) کہتے ہیں۔ ان علامتوں کے ذریعے پڑھنے والے کو تحریر کا مطلب سمجھنےمیں آسانی ہوتی ہے۔ چند علامتیں یہ ہیں :
(1) سکتہ ، (2) وقفہ ؛ (3)رابطہ : (4)خَتْمہ ۔ (5)سوالیہ ؟ (6)ندائیہ ، فجائیہ ! (7)قوسین () (8)واوین “ “
(1) سکتہ(Comma) ( ، )
اس علامت کا انگریزی نام “ کاما “ زیادہ مشہور ہے۔ سکتہ کی علامت( ، ) کسی مقام پر ہلکا سا توقف کرنے کے لئے لکھی جاتی ہے۔ مثلا ً(۱)جب دو یا زیادہ ایک ہی قسم کے کلمے ایک ساتھ آئیں توایسی صورت میں عام طور پر پہلے ایک یا دو لفظوں کے بیچ میں کاما آتا ہے اور آخری لفظ سے پہلے “ اور “ یا “ یا “ آتا ہے جیسے : یہ کتاب مفید ، نصیحت آموز اور آسان ہے۔ اسلم بہت سمجھدار ، ذہین اور بااخلاق ہے (۲)ندائیہ لفظوں کے بعد ، جیسے : اے بوڑھو ، جوانو ، بچو! (۳)ایک ہی قسم کے دویا زیادہ چھوٹے جملوں کے درمیان ، جوکسی بڑے جملے کے اجزاء ہوں ، جیسے : “ وہ گھر پہنچا ، نہاکر کپڑے بدلے ، چائے پی اور مدرسے چلا گیا۔ “
(2) وقفہ (Semicolon)(؛)
اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے ، جہاں سکتہ ( ، )کی نسبت زیادہ ٹھہراؤکی گنجائش ہو ، جیسے : مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کا م سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛اس لئے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لئے استقامت ضروری ہے۔
(3)رابطہ (Colon)( : )
کسی کا قول نقل کیا جائے ، کسی اقتباس کو لکھا جائے ، نظم یا نثر کی تشریح کی جائے؛ایسے موقعوں پر اس علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مثالوں سے پہلے ، شعر یا مصرعے کا حوالہ دینے سے پہلے ، اس علامت کو لایا جاتا ہے ، مثلاً : (۱)فقہ کے چار ماخذ یہ ہیں : قراٰن ، حدیث ، اجماع اور قیاس(۲)فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہٗ اللہُ یعنی جو مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ پاک اس کے عیب چھپائے گا۔ ( ابن ماجہ ، 3 / 218 ، حدیث : 2544)(۳)مقولہ ہے : اَلْکِنَایَۃُ اَبْلَغ ُ مِنَ الصَّرِیْحِ کنایہ(یعنی اشارے میں کہی گئی بات) صریح (یعنی واضح بات)سے بھی بڑھ کر بلیغ (یعنی کامل ہوتی) ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح ، 4 / 786)
(4)ختمہ(Full Stop)(۔ )
یہ علامت جملے کے خاتمے پر لگائی جاتی ہے ، جیسے : میں وہاں گیا تھا۔ انگریزی کے مُخَفَّفَات کے بعد بھی یہ علامت لگا دیتے ہیں ، جیسے : پی۔ آئی۔ اے۔
(5)سوالیہ(Question Mark) (؟)
سوالیہ جملے کے آخر میں یہ علامت آتی ہے ، جیسے : کیا بات ہے؟ تم کہاں سے آرہے ہو؟اُس نے کیاکہا؟اب کس کی باری ہے؟
(6)ندائیہ ، فجائیہ(exclamation mark)(!)
یہ علا مت مُنادیٰ (یعنی جسے پکارا جائے اس ) کے ساتھ لائی جاتی ہے۔ جیسے : میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آخرت کی فکر کیجئے۔ اس صورت میں اس کو “ ندائیہ “ کہیں گے۔ جب یہ علامت اُن الفاظ یا جملوں کے بعد آتی ہے جن سے کوئی جذبہ ظاہر کرنا ہوتا ہے ، جیسے : غصہ ، حقارت ، نفرت ، خوف ، غم ، خوشی ، تعجب؛تو اس کو “ فجائیہ “ کہا جاتا ہے ، جیسے : افسوس! تم سے یہ امیدنہیں تھی۔ جذبے کی شدت کی مناسبت سے ، ایک سے زیادہ علامتیں بھی لگا دیتے ہیں ، جیسے : بس صاحب!بس!!کبھی تنبیہ کے موقع پر بھی استعمال کرتے ہیں ، جیسے : “ خبردار!دیکھ کر! “
(7)قوسین(Brackets) ()
عام طور پر جملۂ مُعْتِرِضَہ (یعنی اصل کلام کے درمیان ضِمناً آنے والے جملے)کو قوسین میں لکھا جاتا ہے ، جیسے : محمد جمیل عطاری (جو جامعۃ المدینہ میں پڑھاتے تھےان ) کا انتقال ہو گیا ہے۔
(8)واوین(Inverted Commas) “ “
جب کسی کا قول ، اسی کے الفاظ میں نقل کیا جاتاہے تو اس کے شروع اور آخر میں یہ علامت لاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ حصہ ، باقی عبارت سے الگ ہے اور کسی دوسرے سے تعلق رکھتا ہے جیسے میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت ، مولٰینا شاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد21 ، صفحہ579 پر فرماتے ہیں : “ (جو) اپنی جھوٹی تعریف کو دوست رکھے (یعنی پسند کرے)کہ لوگ ان فضائل سے اس کی ثناء (یعنی تعریف)کریں جو اس میں نہیں جب تو صریح حرام ِ قطعی ہے۔ “ اسی طرح کسی مشہور شعر کے کسی ٹکڑے کو ، کسی خاص ترکیب کو ، یانثر کے کسی خاص ٹکڑے کو جب اپنی عبارت میں شامل کرتے ہیں تو اس کو ممتاز کرنے کے لئے “ واوین “ میں مقید کرتے ہیں ، جیسے : “ اللہ کرے دل میں اتر جائے مری بات “ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی لفظ یا مجموعۂ الفاظ کو ایک خاص معنی میں ، یا ایک خاص طرح استعمال کیا گیا ہے اور پڑھنے والوں کی توجہ کو اس خاص معنویت یا خاص انداز ِ استعمال کی طرف مبذول کروانا مقصود ہے؛اس صورت میں بھی ان الفاظ یا اس لفظ کو “ واوین “ میں لاتے ہیں ، جیسے : جو خود “ پستیوں “ کی طرف محو ِ سفر ہو دوسروں کو “ بلندی “ کا راستہ کیونکردکھائے گا؟کبھی بعض اصطلاحوں کو بھی “ واوین “ میں لکھا جاتا ہے ، جیسے : غیبت “ حرام “ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
عزیز طلبہ!تالیف و تصنیف کرنے اور تحریروں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے مذکورہ رموزِ اوقاف اور ان کا استعمال خوب ذہن نشین کرلیجئے ، اِنْ شَآءَ اللہ بہت فائدہ ہوگا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments