دارالافتاء اہلِ سنّت
* مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ
(1)مسافر اپنا سامان بھول جائے تو ڈرائیور کیا کرے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ٹیکسی چلاتا ہوں بعض اوقات مسافر اترتے ہوئے اپنا سامان بھول جاتے ہیں تو میرےلئے اس سامان سے متعلق کیا حکم شرعی ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسافروں کاجو سامان آپ کو اپنی ٹیکسی سے ملے ، وہ لقطہ کے حکم میں ہے اور لقطہ کا حکم یہ ہے کہ اصل مالک کی تلاش کے لئے ممکنہ حد تک تشہیر کی جائے مثلاًجہاں سے اٹھایا یونہی جہاں ڈراپ کیا وہاں معلومات مل سکتی ہوں تو وہاں پتا کیا جائے کچھ انتظار بھی کیا جائے کہ مالک خود ٹیکسی والے کی تلاش میں ہو تو اسے مل جائےاگر مالک مل جائے تو یہ سامان اس کو دے دیں آپ بریٔ الذمہ ہوجائیں گے لیکن اس کے باوجود اگر کسی طرح مالک کا پتا نہ چلے تو یہ سامان اپنے پاس حفاظت کی غرض سے رکھ لیں اس کےملنے کی جب امید نہ رہے تو اس کی طرف سے کسی شرعی فقیر ، مسکین کو صدقہ کردیں ، یونہی اگر آپ شرعی فقیر ہیں تو مدّتِ مذکورہ تک اعلان کے بعد اپنے صرف میں بھی لاسکتے ہیں ، صدقہ کرنے کی صورت میں آپ برئ الذمہ تو ہو جائیں گےلیکن اگر پھر کبھی اصل مالک مل جاتا ہے اور وہ صدقہ کرنے سے راضی نہیں ہوتا تو مالک کو اس سامان کی قیمت اپنے پاس سے دینی ہوگی۔ (الفتاوی الھندیۃ ، 2 / 289 ، فتاویٰ رضویہ ، 25 / 55 ، بہارِ شریعت ، 2 / 476 ، 475 ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)ہمزاد کی حقیقت
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شریعت میں ہمزاد کی کیا حقیقت ہے؟ ہمزاد کون ہوتے ہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہمزاد ایک قسم کا شیطان ہے ، جب بھی انسان کے ہاں کسی بچے کی ولادت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ بھی پیدا ہوتا ہے ، اُس جن کو عربی میں وسواس ، فارسی میں ہمزاد کہتے ہیں ، یہ انسان کو بری باتوں کی ترغیب دلاتا ہے البتہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہمزاد مسلمان ہو گیا تھا اور بری باتوں کے بجائے اچھی باتیں بتاتا تھا۔ (ماخوذ از : فتاویٰ رضویہ ، 21 / 216 ، فتاویٰ بحر العلوم ، 5 / 256)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)کیا دعوت ولیمہ وسیع پیمانے پر کرنا ضروری ہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ باقاعدہ وسیع پیمانے پر ولیمہ کرے لہٰذا وہ شبِ زفاف کے بعد گھر میں ہی کھانا پکا کر سسرال کے کچھ افراد کو بلا کر دعوتِ ولیمہ کرلے ، تو کیا اس کا ولیمہ ہوجائے گا؟ راہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ولیمہ ہوجائے گا ، کیونکہ ولیمہ کے لئے یہ بات لازم و ضروری نہیں کہ زیادہ اہتمام کے ساتھ ہی کیا جائے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ مرد اپنی حیثیت کے مطابق دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کرے۔
صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے : “ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ولیمہ کرو اگرچہ بکری ہی سے ہو۔ “ ( بخاری ، 2 / 777ملخصاً)
علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرَّحمہ اس حدیثِ مبارک کے تحت فرماتے ہیں : “ قاضی عیاض علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ولیمہ کی دعوت کے لئے زیادتی کی کوئی حد نہیں ، اسی طرح کمی کی بھی کوئی حد نہیں ، بلکہ جو چیز میسر ہوجائے وہ کفایت کرے گی ، البتہ شوہر کی حیثیت کے مطابق ولیمہ کی دعوت کا ہونا مستحب ہے۔ “ (فتح الباری ، 9 / 293)
مراٰۃ المناجیح میں ہے : “ اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ ولیمہ کرنا سنت ہے اور ولیمہ بقدرِ طاقت زوج ہو اس کے لئے مقدار مقرر نہیں۔ “ (مراٰۃ المناجیح ، 5 / 72ملخصاً)
فتاوی امجدیہ میں ہے : “ ولیمہ کی دعوت سنت کے لئے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں اگر دو چار اشخاص کو کچھ معمولی چیز اگرچہ پیٹ بھر نہ ہو اگرچہ دال روٹی چٹنی روٹی ہو ، یا اس سے بھی کم کھلاویں سنت ادا ہوجائے گی ، اور کچھ بھی استطاعت نہ ہو تو کچھ الزام نہیں۔ “ (فتاویٰ امجدیہ ، 4 / 225 ، 224ملخصاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(4)قبر پر ہرا پودا نکل آئے تو اسے ہٹانا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قبر پر اگرہرا پودا نکل آئے تو اسےہٹانا کیسا؟ راہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قبر پر اگنے والے تر پودے کو وہاں سے ہٹانا منع ہے ، کیونکہ یہ پودا جب تک تر رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تسبیح کرتا ہے جس سے میت کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اس کی تسبیح سے رحمت کا نزول ہوتا ہے ، لہٰذا اس کے نوچنے میں میت کے حق کو ضائع کرنا ہے۔ (رد المحتار ، 3 / 184ملخصاً ، بہارِ شریعت ، 1 / 852)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر ، کراچی
Comments