حضرت سیّدتُنا اسماء بنتِ یزید رضی اللہ عنہا

تذکرۂ صالحات

حضرت  سیّدتنا اسماء بنت یزیدرضی اللہ عنہا

*   محمد بلال سعید عطاری  مدنی

ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ

ایک مرتبہ ایک خاتون حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں حاضِر ہُوئیں اور کہنے لگیں : یَارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میں بہت سی عورتوں کی نمائندہ بن کر آپ کی بارگاہ میں  آئی ہوں ، اللہ پاک نے آپ کو مَردوں اور عورتوں دونوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے ، چنانچہ ہم عورتیں آپ پرایمان لائی ہیں اور آپ کی پیروی کا عہد کیا ہے ، اب معاملہ یہ ہے کہ ہم عورتیں پردہ نشین ہو کر گھروں میں رہتی ہیں ، ہم اپنے شوہروں کی خدمت کرتی ہیں ،   ان کے گھروں کی رکھوالی کرتی ہیں اور ان کے مالوں اور سامانوں کی حفاظت کرتی ہیں ، جبکہ مرد جمعہ کی نماز اورجنازوں میں شرکت کر کے اجرِ عظیم حاصل کرتے ہیں ، تو سُوال یہ ہے کہ ان مَردوں کے ثوابوں میں سے کچھ ہم عورتوں کو بھی حصّہ ملے گا یا نہیں؟  یہ سُن کر آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  صحابۂ کِرام    رضی اللہ عنہم   کی طرف مُتَوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا : دیکھو اس عورت نے اپنے دِین کے بارے میں کتنا اچھا سُوال کیا ہے ، پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اُس خاتون سے فرمایا کہ تم سُن لو اور جاکر عورتوں سے کہہ دو : عورتیں اگر اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کر کے اُن کو خوش رکھیں ، ہمیشہ اپنے شوہروں کی خُوشنودی طلب کرتی رہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتی رہیں تو مَردوں کے اعمال کے برابر عورتوں کو بھی ثواب ملے گا ، یہ سُن کر وہ خاتون بہت زیادہ خُوش ہوئیں۔ (استیعاب ،  4 / 350 ملتقطاً)

کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ عظیم اور دانِشوَر خاتون کون تھیں؟وہ کوئی اور نہیں  بلکہ جلیلُ القدر صحابی حضرتِ سَیّدُنا مُعاذ بن جَبل  رضی اللہ عنہ  کی پھوپھی زاد بہن اور انصاری صحابیہ حضرت سیّدتُنا اُمِّ سَلَمہ اسماء بنتِ یزید   رضی اللہ عنہا  تھیں۔ (جنتی زیور ، ص534) آپ کو “ خَطِیبَۃُ النِّساءِ (یعنی عورتوں کی نمائندہ) کے پیارے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ( الاصابہ فی تمییز الصحابۃ  ، 8 / 21)  کیونکہ آپ   رضی اللہ عنہا  اکثر عورتوں کے سوالات رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی بارگاہ میں عرض کرتی تھیں۔

فضائل ومناقب : حضرتِ سَیِّدَتُنا اَسْماء بنتِ یزید   رضی اللہ عنہا  نے بیعتِ رِضوان میں شریک ہوکر پیارے آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے بیعت ہونے کا شَرَف حاصل کیا اور جنّت کی خوش خبری پانے والوں میں شامل ہوگئیں ، آپ کو حضورِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے کئی احادیثِ کریمہ روایت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ،  3 / 532) اسی طرح آپ   رضی اللہ عنہا  کو پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوتی رہی۔ (مسند احمد ، 10 / 443 ، حدیث : 27673)  آپ   رضی اللہ عنہا  کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ حضرت سیِّدتُنا عائشہ صدیقہ   رضی اللہ عنہا  کو دُلہن بنانے میں جن خوش نصیب صحابیات نے حصّہ لیا ، ان میں آپ بھی شامل تھیں۔ ( اسد الغابہ ، 7 / 23)

تبرّکِ مصطفےٰ : آپ   رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں : ایک بار حضورِ اَکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے گھر میں مغرب کی نماز ادا فرمائی ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ 40 صحابَۂ کِرام    رضی اللہ عنہم   بھی تھے ، میں نے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں تھوڑا سا سالن اور چند روٹیاں پیش کیں ، سب نے وہ کھانا تناوُل فرمایا ، لیکن پھر بھی وہ کھانا ختم نہ ہوا پھر رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے مشکیزے سے پانی نوش فرمایا۔ ہم اُس مشکیزے سے بیماروں کو پانی پلاتے تھے تو اُنہیں  شِفا حاصل ہوتی تھی اور ہم خود بھی کبھی کبھی اُس مشکیزے سے بَرَکت کے لئے  پانی پیتے تھے۔ ( طبقات ابن سعد ،  8 / 244)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت ، المدینۃالعلمیہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code