اسلام کی روشن تعلیمات
سوتیلے رشتہ دار
* شاہ زیب عطاری مدنی
ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ
صلۂ رحمی کرنا ، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آن سگے اور سوتیلے سبھی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا دینِ اسلام کی روشن تعلیمات میں سے ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : (وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-)تَرجَمۂ کنز العرفان : اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ) ([i]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) افسوس کہ ہمارے معاشرے میں سوتیلے رشتوں کو بہت کم ظرفی سے دیکھا جاتاہے جبکہ دینِ اسلام کی روشن تعلیمات ہررشتے کا احترام سکھاتی ہیں ، اللہ کے نبی ، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اُمّہاتُ الْمؤمنین کی مبارک سیرت سے بھی ہمیں سگے ، سوتیلے کے فرق کے بغیر رشتوں کی محبت کا درس ملتا ہے۔ حضرت سیّدتنا فاطمۃُ الزّہراء رضی اللہ عنہا اُمُّ المؤمنین سیّدہ خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی حقیقی بیٹی ہیں لیکن پھر بھی اما ں عائشہ صدیقہ اور شہزادئ کونین فاطمۃُ الزّہراء رضی اللہ عنہما کی باہمی ماں بیٹی والی محبت کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے چنانچہ
ماں کا واسطہ : سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے دیکھ کر ارشاد فرمایا : میری بیٹی! مرحبا! پھر ان کوپاس بٹھایا ، اور ان سے سَرگوشی کی جس کو سُن کر شہزادی بہت روئیں۔ جب آ پ نے ان کی بے قراری دیکھی تو دوبارہ سرگوشی کی جس سے آپ ہنس پڑیں۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لے گئے تو میں نے ان سے سرگوشی کے بارے میں پوچھا تو آپ بولیں کہ میں رسولُ اللہ کا راز اِفشا (ظاہر)نہیں کرسکتی ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جوکہ خاتونِ جنّت کی حقیقی والدہ نہ تھیں ، فرماتی ہیں کہ جب رسولُ اللہ کا وصال ہو گیا تو میں نے خاتون ِ جنّت سے کہا : میرا آپ پر جو حق ہے(یعنی ماں کا بیٹی پر حق ہوتا ہے) اس حق کا واسطہ دے کر کہتی ہوں ، مجھے بتائیے! رسولُ اللہ نے آپ سے کیا فرمایا تھا؟ خاتونِ جنّت رضی اللہ عنہا نے کہا : ہاں ! اب بتاتی ہوں ، پہلی بار آپ نے سرگوشی کی تو مجھے یہ خبر دی کہ ہر سال جبرئیل مجھ سے ایک بار قراٰنِ پاک کا دور کیا کرتے تھے اس مرتبہ انہوں نے 2 بار دور کیا ہے ، اب میرا یہی گمان ہے کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے ، تم اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا ، بے شک میں تمہارا اچھا پیشوا ہوں ۔ یہ سن کر مجھ پر گِریہ طاری ہوا (یعنی میں رونے لگی)۔ جب بابا جان نے میری بے قراری دیکھی تو مجھ سے دوبارہ سرگوشی کی اور فرمایا : اے فاطمہ! کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم تمام جنتیوں کی بیویوں یا مومنوں کی بیویوں کی سردار ہو۔ تو میں ہنس پڑی۔ ([ii])
محبت کا حکم : ایک روز نبیِّ محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرو گی جس سے میں محبت کرتاہوں؟ آپ نے جواباً کہا : کیوں نہیں۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تو اس (عائشہ صدیقہ) سے محبت کرو۔ ([iii])
سوتیلے بچوں پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب : اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی سوتیلی اولاد تھی آپ نے ان کے بارے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کرتے ہوئے پوچھا : یَارسولَ اللہ! اگر میں ابوسلمہ کے بچوں پر جو گویا میرے ہی بچے ہیں خرچ کروں تو کیا مجھے ثواب ملے گا؟ فرمایا : ان پر خرچ کرو تمہیں ان پر خرچ کا ثواب ہے۔ ([iv])
ایک بیٹے کے لئے سوتیلی ماں کے رشتے کی اہمیت و حقوق بیان فرماتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت ، سیّدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : سوتیلی ماں توایک عظیم وخاص علاقہ اس کے باپ سے رکھتی ہے جس کے باعث اس کی تعظیم وحرمت اس پربلاشبہ لازم ، اسی حرمت کے باعث ربُّ العزّت جَلّ وعَلا نے اسے حقیقی ماں کی مثل حرام ابدی کیا۔ ([v])
ہاں! سوتیلی اور حقیقی ماں میں اتنا فرق ضرور ہے کہ حقیقی ماں بذاتِ خود ہر طرح کی خدمت وادب وتعظیم واطاعت کی حقدار ہے جبکہ سوتیلی ماں کا اپنا ذاتی کوئی حق نہیں جوکچھ ہے باپ کے ذریعہ سے ہے۔ ([vi])
قارئین کرام!
ہمارے معاشرے میں لفظ “ سوتیلا “ بلاوجہ بدنام ہے وگرنہ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے سوتیلے رشتوں والے سگے رشتوں سے بھی زیادہ محبت ، چاہت اور اپنائیت رکھتے ہیں ، ہمیں چاہئے کہ سوتیلے ماں باپ ہوں یا بچّے کسی کے ساتھ بھی بدتمیزی اور بدسلوکی کا معاملہ نہ برتیں کہ یہ تو پھر بھی رشتہ دار ہیں دین ِ اسلام تو اجنبی کے ساتھ بھی حسنِ اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر کسی کی سوتیلی ماں یا باپ کسی بات پر ڈانٹ دیتا ہے تو سوتیلے رشتے کو بنیاد نہ بنائیں بلکہ یہ سوچیں کہ سگے ماں باپ بھی تو کئی بار بچّوں کو سدھارنے کے لئے ڈانٹتے ہیں ، لہٰذا ہمیشہ ان کے ساتھ محبت و سلوک کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں اپنے قول و فعل سے تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔
اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات حاصل کرنے اور اسلامی معاشرہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments