طیّبہ طاہِرہ حضرت سیّدتُنا بی بی آمنہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا کس قدر خوش نصیب خاتون ہیں کہ آپ کو حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی والدۂ ماجدہ ہونے کا شرف حاصل ہے،آپ کے والد کا نام وَہْب بن عبدِمَنَاف اور والدہ کانام بَرَّہ تھا۔ (دلائل النبوۃ،ج1،ص183) اوصافِ جمیلہ: حضرت سیّدتُنا بی بی آمنہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا نہایت پارسا، پرہیز گار،طہارتِ نفس،شرافتِ نسب اور عزت و وجاہت والی صاحبِ ایمان خاتون تھیں۔آپ قریش کی عورتوں میں حسب، نسب اور فضیلت میں سب سے ممتازتھیں۔(دلائل النبوۃ،ج1،ص102ملخصاً) واقعۂ نکاح: آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا کے والد وَہْب بن عبدِمَنَاف نے جب حضرت سیّدُنا عبدُاللہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کےکمالات دیکھے تو انہیں آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ سے بہت محبت و عقیدت ہو گئی اور گھر آ کر یہ عزم کرلیا کہ میں اپنی نورِ نظر (حضرت سیّدتُنا)آمنہ (رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا) کی شادی(حضرت سیّدُنا) عبدُاللہ ( رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ )ہی سے کروں گا۔ چنانچہ اپنی اس دِلی تمنّا کو اپنے چند دوستوں کے ذریعےانہوں نے حضرت سیّدُنا عبدُالمطَّلِب رضیَ اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچا دیا،آپ اپنے نورِنظرحضرت سیّدنا عبدُاللہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کے لئے جیسی دُلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت سیّدتُنا آمنہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا میں موجود تھیں، اس لئے آپ نے اس رشتہ کو بخوشی منظور کر لیا، یوں 24 سال کی عمر میں حضرت سیّدُنا عبدُاللہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کا حضرت سیّدتُنا بی بی آمنہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا سے نکاح ہو گیا اور نورِمحمدی حضرت سیّدُنا عبدُاللہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہسے منتقل ہو کر حضرت سیّدتُنا بی بی آمنہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا کے شکمِ اَطہر میں جلوہ گَرہوا۔(مدارج النبوۃ،ج2،ص12 ۔13ملتقطاً) اکلوتی اولاد: محمدِ مصطفےٰ، احمدِ مجتبیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اکلوتی(یعنی ایک ہی) اولاد تھے۔(طبقات ابن سعد،ج1،ص79)وصال مبارک: جب آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا حضرت سیّدُنا عبدُالمطَّلِب اور حضرت سیّدتنا امِّ اَیْمَن کی رَفاقت میں حضرت سیّدنا عبداللہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کی قبرِمبارک پر حاضر ہوئیں جیسا کہ آپ کا معمول تھا تو واپس آتے ہوئے مقامِ اَبْواء پر وفات پاگئیں اور اسی جگہ پر آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔ ( انساب الاشراف،ج،ص103) اللہ کی طرف سے حفاظتِ قبر: کچھ کفّارکا گزر مقامِ اَبْواءسے ہوا تو انہوں نے چاہا کہ سیّدتناآمنہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا کا جسدِ مبارک قبر سے نکال کر نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچائیں،لیکن اللہ عَزَّ وَ جَلَّ نے اپنے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی والدہ کےاِکرام کی خاطر انہیں اس ناپاک ارادے سے باز رکھا۔(الکامل فی التاریخ،ج1،ص361) والدہ سےمحبّت کا عالم: ایک بار نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رونے لگے، حاضرین نے رونےکا سبب پوچھا تو فرمایا: مجھے اپنی والدہ کی شفقت ومہربانی یاد آگئی تَو میں روپڑا۔(السیرۃ الحلبیہ،ج1،ص154) والدین کریمین مؤمن ہیں:مُفَسِّرینِ کرام نےمُصطفٰےکریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدین کریمین کےمؤمن ہونے کی دلیل قراٰنِ کریم سے بیان فرمائی ہے چنانچہ اللہ عَزّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے (وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ(۲۱۹)) ترجمۂ کنز الایمان:اور نمازیوں میں تمہارے دورے کو۔(پ19،الشعراء :219)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) بعض مفسِّرین کے نزدیک اس آیت میں ساجدین سے مؤمنین مراد ہیں اور معنیٰ یہ ہیں کہ حضرت آدم علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام اور حضرت حوا رضیَ اللہ تعالٰی عنہَا کے زمانے سے لے کر حضرت عبدُاللہ اور حضرت آمنہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہُمَا تک مؤمنین کی پشتوں اور رحموں میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دورے کو ملاحَظہ فرماتاہے،اس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تمام آباء واَجداد سب کے سب مومن ہیں۔ (صراط الجنان ،ج7،ص169)
صدقہ تم پہ ہوں دل و جان آمنہ تم نے بخشا ہم کو ایمان آمنہ
جو مِلا جس کو مِلا تم سے مِلا دین و ایمان علم و عرفان آمنہ
کُل جہاں کی مائیں ہوں تم پر فدا تم محمد کی بنیں ماں آمنہ
(دیوان سالک،ص32)
Comments