عَہد ساز اور اِنقلاب آفریں شخصیات نے ہردورمیں انسانی سوچ کے دھارے بدلے ،مزاج وکردار کو نئی سمت پر گامزن اورگفتارونگاہ کو نئے زاویوں سے روشناس کیا۔ کئی انقلابی شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے کارنامے نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے والی صدیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں اور لوگ نسل در نسل اُن کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات کی روشنی میں اپنے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک انقلابی شخصیت جواَخلاقِ کریمانہ واقوالِ حکیمانہ، جُہْدِمسلسل، ہمت و شجاعت، علم وتقویٰ ، کردار و عمل، تَدَبُّرواسلامی سیاست، ایثارو تَواضُع، اِسْتِغْنَا و توکُّل اور قناعت و سادگی جیسےعمده اَوصاف سے مزیَّن ہے۔ دنیا جنہیں حیدروصفدر،فاتحِ خیبر، شیرِ خدا، سیّدُالاَولیاِء، امام الاَتْقِیاء، مَخْزَنِ سخاوت، تاجدار شجاعت،اِمَامُ الْمَشَارِق و الْمَغَارِب، خلیفۂ چہارم امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کے چند انقلابی کارنامے ملاحظہ کیجئے:(1)بابُ مدینۃِ العلم آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو بارگاہِ رسالت سے ”بابُ العلم(علم کا دروازہ)“ کالقب عطا ہوا۔ آپ خود فرماتے ہیں: مجھے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے علم کے ہزار باب عطا کئے اور ہر باب سے آگے ہزار باب کھلتے ہیں۔ (تاریخ ابن عساکر،ج42، ص385) ایک موقع پر یوں فرمایا:مجھ سے پوچھو! اللہ تعالیٰ کی قسم !قیامت تک ہونے والی جو بات تم مجھ سے پوچھو گے، میں تمہیں ضرور بتاؤں گا۔(کنز العمال، جز2،ج 1، ص239، حدیث: 4737)آپ کی قراٰن فہمی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار فرمایا: اگر میں چاہوں تو سورۂ فاتحہ کی تفسیر سے 70 اونٹ بھر دوں۔ (الاتقان،ج2، ص1223) (2)شجاعت و بہادری ہجرت کی رات جبکہ چاروں طرف کفار تلواریں لئے کھڑے تھے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے بسترپر سوئے۔ (سیرت ابن ہشام، ص192) غزوۂ تبوک کے علاوہ ہر غزوہ میں شرکت فرمائی اور خیبرکے قلعہ کو فتح کرکے ”فاتحِ خیبر“کے نام سے شہرت پائی۔ (بخاری،ج3، ص84، حدیث: 4209) (3) روشن فیصلےجب سینہ دستِ نبوی سے فیض یاب ہو اور فیصلوں کو تصدیقاتِ نبوی حاصل ہوں تو ایسے فیصلے زمانے میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے فیصلوں کو خود حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے پسند فرمایا۔ (فضائل الصحابہ، ص812، حدیث:1113) مقدمہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوتاآپ چند لمحوں میں اُس کا بہترین فیصلہ فرمادیا کرتے، الغرض آپ کے فیصلے اسلامی عدالت کےلئے انقلابی حیثیت رکھتے ہیں۔ (4)صائب الرائے (درست رائے والے) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہایسی درست رائے کے حامل تھے کہ نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے آپ سے مشورہ فرمایا۔ (بخاری ،ج 4، ص528) خلیفۂ اوَّل حضرت سَیِّدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور خلیفۂ دُوُم حضرت سیّدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جیسےدور اندیش اور تجربہ کار اپنے دورِ خلافت میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مشورہ فرماتے۔(الکامل فی التاریخ،ج3، ص205) (5)عربی زبان کے قواعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب لوگوں کو عربی بول چال میں غلطیاں کرتے پایا تو اصلاح کے لئے بنیادی قواعد وضوابط مرتب کئے اورحضرت ابو الاسود دُؤلی کو کلمہ کی تینوں قسموں”اسم، فعل، حرف“ کی تعریفیں لکھ کردیں اور اِس میں اضافہ کرنے کا فرمایا پھر اُن کے اضافہ جات کی اصلاح بھی فرمائی۔(تاریخ الخلفاء، ص143) (6)فقہ وفتاویٰ بابُ مدینۃ العلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اس میدان میں بھی تاریخ رقم فرمائی، پیش آنے والے نئے مسائل کو پَل بھر میں حل فرمادیتے، کثیرصحابۂ کرام علیہِمُ الرِّضْوَان فقہی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم و حضرت عائشہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُمَا سے لوگوں نے مسئلے پوچھے تو فرمایا: حضرت علی (رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ)سے جاکر پوچھو۔ (مسلم، ص 130، حدیث: 639، مصنف ابن ابی شیبہ،ج 4، ص223، حدیث:5) (7)خارجیوں کا قلع قمع اسلام دُشمن خارجیوں کا سب سے پہلے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ ہی نے قلع قمع فرما کر مسلمانوں کوان کے فتنے سےمحفوظ و مامون کیا۔ (الاستیعاب،ج3، ص217) (8)ہجری سن کا آغاز عہدِ فاروقی میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ ہی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اسلامی سن کا آغاز ہجرتِ مدینہ سے کیا گیا۔ (البدایۃ والنہایۃ،ج 5، ص146) (9)اُمور رفاہِ عامہ(عوامی بھلائی کے کام) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے حقوق ِعامہ کی حفاظت کا بھی اہتمام فرمایا جیسا کہ شاہراہِ عام کو گندگی سے بچانے کےلئے بیت الخلاء اور نالیوں کو شارع عام سے دور بنانے کا حکم فرمایا۔(مصنف عبدالرزاق،ج9، ص405، حدیث: 18722) انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے قانون بنایاکہ اگر کسی کے کنواں کھودنے یا بانس وغیرہ گاڑنے کی صورت میں انسانی جان تلف ہوئی تو ضمان ادا کرنا ہو گا ۔(مصنف عبدالرزاق،ج 9، ص405، حدیث: 18723)
Comments