کیسا ہونا چاہئے؟
مؤذن کے اوصاف(قسط : 01)
* ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ صفر المظفر1442ھ
مساجِد کی آبادکاری میں درس و تبلیغ ، علاقے میں مذہبی کاموں کی ترویج میں ائمہ مساجد کی محنتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم کردار مساجد کے مؤذنین اور خادمین کا بھی ہے۔
بڑی مساجد میں مؤذن اور خادم الگ الگ ہوتے ہیں جبکہ اکثر چھوٹی یا متوسط طبقے کی مساجِد میں مؤذن اور خادم کی ذمّہ داریاں نبھانے والا ایک ہی فرد ہوتا ہے ، جبکہ گاؤں دیہاتوں میں تو بعض جگہ امامت و مُؤذِّنی کے فرائض بھی ایک ہی فرد کے ذِمّہ ہوتے ہیں اور صفائی ستھرائی کا کام اکثر اہلِ محلہ کرتے ہیں۔
امام کے اوصاف اور ذمّے داریوں کے حوالے سے ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے گزشتہ تین شماروں (شوّالُ المکرم تا ذوالحجۃ الحرام 1441ھ) میں تفصیلی کلام گزرا ہے ، یہاں مؤذن کے حوالے سے مدنی پھول پیشِ خدمت ہیں :
جن مساجد میں مؤذن اور خادِم الگ الگ ہوتے ہیں وہاں عمومی طور پر مؤذن صاحب کے ذمّہ ، مسجد کھولنا ، بند کرنا ، اذان دینا ، اِقامت کہنا ، امام صاحب کی غیرموجودگی میں امامت کرنا ، مسجد کے سامان کی حفاظت کرنا اور اسپیکر و مائیک وغیرہ کے معاملات جیسے کام ہوتے ہیں۔ انہی کے حوالے سے مؤذن صاحبان کے لئے چند مدنی پھول پیش کئے جاتے ہیں :
* وقت پر اذان دینا ایک اہم امر ہے ، مؤذن صاحب کو چاہئے کہ اس کی پابندی کریں۔ اکثر مقامات پر فجر کی اذان جماعت سے تقریباً آدھا گھنٹا قبل جبکہ بقیہ نمازوں میں 15 یا 20 منٹ پہلے اذان دی جاتی ہے غرض یہ کہ آپ کی مسجد میں جو بھی وقت مقرر ہو اس کی پابندی کرنی چاہئے۔ دکان دار اور کام کاج میں مصروف لوگوں کا ذہن بنا ہوتا ہے کہ اذان کے 5یا10 منٹ بعد جائیں گے ، یوں اذان لیٹ ہونے سے جہاں ایسے لوگوں کی جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہے وہیں ان کے بدظن ہونے اور مؤذن صاحب کی کارکردگی پر انگلی اٹھنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
* اذان کی طرح وقتِ مقررہ پر اِقامت پڑھنا بھی بہت اہم معاملہ ہے ، ہمارے معاشرے کا جو حال ہے اس کے پیشِ نظر امام و مؤذن اور دین کا درد رکھنے والے احباب کو احتیاط ، وسعتِ قلبی ، وقت کی پابندی اور عوامُ الناس کے لئے دینی معاملات میں آسانی پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس لئے چاہئے کہ جونہی جماعت کا وقت ہوجائے فوراً اِقامت پڑھیں ، ایسا نہ ہو کہ ادھر جماعت کا وقت ہوجائے اور مؤذن صاحب ابھی وضو کررہے ہوں یا بالوں میں کنگھی کرنے یا عمامہ شریف کا تاج سجانے میں مصروف ہوں۔ مسجد کی حفاظت ، انتظامات کا لحاظ ، نمازیوں کی سہولت اور مسجد کی خدمت کے لئے بھاگ دوڑ بڑی سعادت کی بات ہے لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ مؤذن صاحب کو وقت کی پابندی بھی ضروری ہے۔
* ایک اور بہت ہی قابلِ توجہ اور ضروری بات امام صاحب کی نِیابَت ہے یعنی امام صاحب کی غیر موجودگی میں مؤذن صاحب کا جماعت کروانا ایک اہم معاملہ ہے ، اس لئے مؤذن صاحب پر لازم ہے کہ نماز کے اس قدر ضروری مسائل لازمی سیکھیں کہ نماز صحیح پڑھا سکیں۔ بالخصوص نماز کی شرائط ، فرائض ، واجبات اور مکروہاتِ تحریمہ کے بارے میں اچھی معلومات ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ شرط یا فرض رہ جائے تو نماز بالکل نہ ہوگی ، جبکہ اگر بھولے سے واجب رہ جائے یا کوئی مکروہِ تحریمی عمل ہوجائے تو بعض صورتوں میں تو سجدۂ سہو واجب ہوگا جبکہ بعض صورتوں میں نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
* امامت خواہ ایک وقت کی ہو یا مستقل بہر صورت ایک اہم منصب اور لوگوں کی نگاہ میں بھی بہت عزّت و شرف کا مقام ہے۔ اس لئے مؤذن صاحب کو چاہئے کہ کردار و گفتار ، رہن سہن ، لباس اور صفائی و نظافت کے حوالے سے بھی توجہ رکھیں۔ صفائی و نظافت کیلئے ضروری نہیں ہے کہ کاٹن یا لٹھے کا فُل پریس کیا ہوا نیا سفید سوٹ ہو ، نہیں بلکہ صرف دُھلا ہوا صاف لباس بھی نظافت ہی ہے۔
* امام صاحب کی غیر موجودگی میں اگر لوگ کوئی شرعی سوالات کریں تو مؤذن صاحب کو چاہئے کہ اگر بالکل کوئی سادہ سی بات ہو مثلاً نماز یا وُضو کا طریقہ ، نماز کی رکعات ، وُضو کے فرائض وغیرہ تو جواب دینے میں حرج نہیں ، جبکہ دیگر مشکل یا پیچیدہ سوالات کے جواب کچھ کچھ آتے بھی ہوں تو از خود جواب دینے کی جرأت نہ کریں بلکہ مفتی صاحبان سے رہنمائی لینے کا مشورہ دیں۔
* اکثر مساجد میں ایک سے زائد گھڑیاں لگی ہوتی ہیں ، مؤذن صاحب کو چاہئے کہ ان کا بھی خیال رکھیں کہ سبھی کا وقت ایک ساتھ ہو۔ بعض دفعہ ایک ہی مسجد کی گھڑیوں کا وقت آگے پیچھے ہونے کے باعث جماعت کا وقت ہونے پر لوگ باتیں کرتے ہیں ، امام صاحب اور مؤذن صاحب دائیں جانب والی گھڑی کا اعتبار کرتے جبکہ لوگ بائیں جانب والی کو فوکس کررہے ہوتے ہیں اور جس گھڑی کا ٹائم آگے ہو اسے دیکھ کر گردنیں گھما گھما کر دیکھتے ہیں کہ مؤذن صاحب اقامت کیوں نہیں پڑھ رہے؟بالخصوص جو گھڑی خطیب صاحب کے سامنے ہو اس کا وقت بالکل دُرست رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ جمعہ کا بیان و خطبہ لیٹ نہ ہوجائے۔
* اسی طرح نماز کی پابندی اور مکمل ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ جماعت کے فوراً بعد اپنی مصروفیات میں نکل جانا اور بقیہ سنن ونوافل مسجد میں ادا نہ کرنا مناسب نہیں کہ یہ عمل نمازیوں کو بدظن کرنے کا سبب ہے۔
بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں اِنْ شَآءَ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ناظم ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments