کیسا ہونا چاہئے؟
مسجد، نمازی اور اہل محلہ (قسط:02)
*مولاناابوالنورراشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر 2023
گذشتہ سے پیوستہ([1])
*بعض اہلِ محلہ اور مسجد انتظامیہ کی عادت ہوتی ہے کہ انہیں ہر چھ مہینے یا سال پر امام یا مؤذن تبدیل کرنا ہوتاہے۔ ایسوں کو سوچنا چاہئے کہ امام صاحب اورمؤذن صاحب بھی انسان ہی ہیں، ان کے بھی بچے ہوتے ہیں، ان کے بچّوں کا بھی کوئی مستقبل اور تعلیم کا معاملہ ہوتاہے۔ اگر امام صاحب اور مؤذن صاحب یونہی چھ مہینے کسی مسجد اور سال کسی اور مسجد گھومتے رہیں تو ان کے بچوں کا تعلیمی مستقبل تباہ ہو سکتا ہے۔ بعض لوگوں کو تو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ”امام کبھی بھی سال، دوسال سے زیادہ نہیں رکھنا چاہئے۔“ اَسْتغفرُاللہَ الْعَظیم
*بعض مرتبہ انتظامیہ کے افراد یا مسجد کو فنڈ دینے والوں کی آپس میں کسی وجہ سے ٹھنی ہوتی ہے۔ یہ لوگ آپس میں مسائل کو حل کرنے کے بجائے امام صاحب یا مؤذن صاحب کو قربان کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی اپنی مرضی کے مطابق امام صاحب سے بیانات کروانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ بعض کسی فسادی کی باتوں میں آکر امام صاحب سے بِگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایسوں کو بھی کم ازکم یہ سوچنا چاہئے کہ امامت کے مصلے پر کھڑا ہونے والا یہ شخص رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نائب ہے، ہم کس کے ساتھ عداوت رکھ رہے ہیں!
*ہنگامی حالات یعنی آفات، بارش، طوفان یا ہڑتال وغیرہ جیسے حالات میں جہاں ہم اپنے بیوی بچّوں، بہن بھائیوں اور عزیز رشتے داروں کی خیریت معلوم کرتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، وہیں امام اور مؤذن صاحبان کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ یہ صرف مسجد انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ تمام اہلِ محلہ کو اس پر توجہ دینی چاہئے، 2007ء میں ایک شخصیت کے قتل پرسندھ بھر میں خطرناک ہڑتالیں ہوئیں، لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ ان حالا ت میں کثیر مساجد میں ائمہ و مؤذنین بھی محصور تھے۔ کراچی کے ایک عالمِ دین کا بیان ہے کہ وہ پانچ سے چھ دن تک اپنی مسجد میں محصور رہے، مسجد انتظامیہ، اہلِ محلہ اور نمازیوں میں سے کسی ایک نے بھی نہ سوچا کہ امام صاحب اور مؤذن صاحب کس حالت میں ہوں گے! ہمارے پاس صرف کچے چاول تھے، ہم انہیں ابال کر نمک مرچ چھڑک کر کھاتے رہے۔
*سوشل میڈیا،ا سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کا دَور ہے۔ دیگر لوگوں کی طرح امام صاحبان کی بھی موبائل کی ضروریات ہوتی ہیں۔ ہزاروں روپے مالیت کی کتابیں موبائل میں پڑھی جاسکتی ہیں اور اکثر امام صاحبان اپنی کتب کی ضرورت موبائل سے بھی پوری کرتے ہیں چنانچہ امام صاحب کے پاس بڑا موبائل دیکھ کر باتیں کرنے یا بدگمانی کرنے کے گناہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔
*بہت سے لوگ اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کے موقع پر یا عیدین و دیگر مواقع پر امام صاحب یا مؤذن صاحب کو سوٹ، ٹوپی، عمامہ، مٹھائی وغیرہ دیتے ہیں۔ اکثر یہ چیزیں بالخصوص کپڑے بہت ہی ہلکی قِسم کے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کیا سوچ ہوتی ہے اللہ ہی جانے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: ”لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ“ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔ (بخاری،1/16،حدیث:13)
٭اسی طرح بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ شاید امام صاحب کو جائے نماز اور ٹوپی ہی دینی چاہئے، اسی کا زیادہ ثواب ہے، ایسوں کوخیال کرنا چاہئے کہ بھلا ایک امام کتنے جائے نماز پر نماز پڑھائے گا، جبکہ اگر مسجد، امام یا مؤذن کی ضرورت کی چیز دی جائے تو اس میں زیادہ فائدہ ہے۔
*اکثر مساجد میں امام و مؤذن کسی دوسرے علاقے یا شہر سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں اور مسجد کے علاقے میں اُن کے رشتے دار نہیں ہوتے، ایسی صورت میں اہلِ محلّہ کی جانب سے محبت، اپنائیت، اخلاقیات اور اخوت کا مظاہرہ اور زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اہلِ محلہ کو چاہئے کہ امام صاحب یا مؤذن صاحب بیمار ہوں تو ان کی تیمارداری کریں، علاج کروائیں، سفر پر جائیں تو رخصت کریں، واپس آئیں تو کوشش کریں کہ اسٹیشن وغیرہ سے ریسیو کریں یا کم از کم علاقے میں آنے پر خوش آمدید کہیں، حال احوال معلوم کریں۔
*مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، جیسے سب کے ساتھ ضروریاتِ زندگی ہیں ایسے ہی امام و مؤذن کے ساتھ بھی ہیں۔ عموماً ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، اس لئے اہل محلہ کو چاہئے کہ عیدین اور دیگر مواقع پر حسبِ استطاعت امام و مؤذن کو مالی صورت میں تحائف پیش کیا کریں۔ شیخ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے کیا ہی اچھا اقدام فرمایا کے اپنے محبین کو ائمہ مساجد و علما کی بارگاہ میں ہدیہ پیش کرنے کا ذہن دیا، چنانچہ رسالہ”نیک اعمال“ میں نیک عمل نمبر 69ہے: کیا آپ نے اس ماہ کسی سنّی عالم(یا اِمام مسجد، مؤذن یا خادم) کی کچھ نا کچھ مالی خدمت کی؟
*نماز میں کبھی کبھی بھول یا کوئی غلطی ہوجانا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں، بشرطیکہ اس غلطی کو سدھار لیا جائے مثلاً سجدۂ سہو واجب ہو تو ادا کرلیا جائے یا کوئی مفسدِ نماز عمل پایا گیا تو نماز دوبارہ پڑھی جائے، بعض لوگ امام کے بھولنے یا اُس سے غلطی ہوجانے پر بڑا نامناسب انداز اختیار کرتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ جب نماز میں غلطی ہوجانے پر اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے سدھارنے کا طریقہ عطا فرمایا ہے اور امام صاحب اس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو اب اعتراض کا کیا جواز باقی رہ جاتاہے۔
*مسجد کی دریوں اور دیگر سامان کا استعمال شریعت کے مطابق کرناچاہئے، بعض لوگ مسجد کی سیڑھی، کرسیاں، ٹیبل، اسٹینڈ اور دیگر چیزیں اپنے ذاتی استعمال میں لے آتے ہیں، اسی طرح جن مساجد میں تعمیرات کا سلسلہ ہوتا ہے ان کے باہر اگر ریت، بجری وغیرہ ڈلوائی گئی ہو تو بعض لوگ وہاں سے تھوڑی بہت اپنی کسی ضرورت کے لئے اٹھالیتے ہیں، یہ ناجائز اور حرام ہے، مسجد کی کوئی چیز بھی کسی کو اپنے ذاتی کام میں لانے کی اجازت نہیں۔ ایک امام صاحب نے محلے کے ایک شخص کو مسجد کی چیز استعمال کرنے سے روکا تو جناب کا جواب تھا کہ ”مسجد کا سامان ہمارے ہی چندے سے آتاہے۔“ اَسْتغفرُاللہَ الْعَظیم، اللہ کے بندو! مسجد کو چندہ دیا ہے تو اپنی قبر و آخرت کے بھلے کے لئے دیا ہے یا کوئی دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے انویسٹمنٹ کی ہے؟ یہ انتہائی افسوسناک صورتِ حال ہے۔
*بعض لوگ دھول مٹی سے بھرے پاؤں لئے آتے ہیں اور مسجد کی دریوں پر پاؤں صاف کرتے ہیں، اسی طرح بعض چھالیہ کھانے والے چھالیہ کے دانے دریوں کے نیچے ڈال دیتے ہیں، مسجد میں بغیر دسترخوان بچھائے کھاتے پیتے ہیں جس سے مسجد کی دریاں اور فرش بھی آلودہ ہوتاہے، اس طرح کی بےشمار بےاحتیاطیاں ہیں جو مسجد کے معاملے میں لوگ کرتے ہیں، انہیں مسجد کی حرمت کا خیال کرنا چاہئے۔(جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments