* امام صاحب کو چاہئے کہ جمعہ کے علاوہ بھی موقع بموقع درس و بیان کا سلسلہ جاری رکھیں بالخصوص طہارت ، نماز اور مہینوں کے اعتبار سے معلومات و عقائد کے حوالے سے درس دیتے رہنا چاہئے ، کبھی سجدۂ سہو واجب ہوجائے تو بعدِ سلام وجہ اور مسئلہ آسان انداز میں سمجھا کر بیان کردینا چاہئے نیز جس وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہوا اس موقع پر لقمہ دینا ہے یا نہیں؟ یہ بھی سمجھا دینا چاہئے۔ ربیعُ الاول میں سیرت و شانِ مصطفےٰ کا بیان ، ربیعُ الآخر میں حُضور غوثِ اعظم اور دیگر اولیا کا ذِکْر ، رَمَضان میں روزوں کے مسائل ، عیدین کے قریب عید کے مسائل الغرض جیسے دن چل رہے ہوں ویسے ہی موضوعات پر درس و بیان کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔
* امامت جیسے عظیم و اہم منصب میں علم و معلومات کی فراوانی بہت ضروری و مفید ہے ، نماز کے فرائض ، واجبات ، سنتوں ، مکروہات اور مُفْسِدات کے ساتھ ساتھ طہارت ، اخلاقیات ، سیر ت ، ذکرِ اسلاف ، قراٰن و حدیث اور بقدرِ ضرورت فقہی مسائل کی معلومات منصبِ امامت کا تقاضا ہیں۔ جیسا کہ سجدۂ سہو کب کب واجب ہوتاہے؟ لقمہ کے اہم مسائل ، نماز کن کن صورتوں میں ٹوٹ جاتی ہے؟ اس لئے امام صاحبان کو چاہئے کہ کتب بینی و مطالعہ کو اپنی عادت اور روزمرہ کی مصروفیات کا لازمی حصہ بنائیں۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ مکتبۃُ المدینہ کی دیگر کتب کے ساتھ ساتھ “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ مختلف عنوانات کو ایک ہی جگہ پڑھنے کا بہترین ذریعہ ہے ، اس میں ہر ماہ 40سے زائد اہم علمی ، دینی ، دنیاوی ، معاشرتی ، اخلاقی اور اصلاحی موضوعات پر مضامین شامل ہوتے ہیں ، جن میں تفسیر ، حدیث کی شرح ، عقائد ، فتاویٰ جات ، تجارت و لین دین کے جدید مسائل ، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت ، صحابۂ کرام اور بُزرُگانِ دین کی سیرت و تعارف ، صالحات کا تعارف ، بچّوں کی تربیت کے مضامین ، خواتین کے لئے بہت ہی مفید مضامین کے ساتھ ساتھ دیگر اہم مضامین شامل ہوتے ہیں۔
* پیارے امام صاحبان! ہمیشہ یاد رکھئے کہ مقتدی بڑی امید سے امام صاحب سے سوال پوچھتے ہیں ، آپ کو چاہئے کہ لوگوں کے سوالات کا مناسب انداز میں جواب دیں ، نہ تو خود پر یہ لازم کریں کہ ہر ہر سوال کا جواب دینا ہی دینا ہے اور نہ ہی ہر سوال کے جواب میں “ لَااَدْرِی یعنی میں نہیں جانتا “ کہنے کو اپنا وظیفہ بنالیں ، جو معلوم ہو اس کا مناسب جواب دیں اور جو نہ پتا ہو اس کے بارے میں سیکھیں ، معلوم کریں ، مطالعہ کریں اور اگلے وقت میں جواب دے دیں ، یہ انداز جہاں امام صاحب کے علم میں اضافہ کا سبب بنے گا وہیں اندازے سے جواب دینے سے بچائے گا اور لوگوں کی نظر میں عزّت بڑھائے گا۔ ہمیشہ یادرکھئے کہ جب امام صاحب ہر بات پر “ معلوم نہیں ، میں نہیں جانتا ، پتا نہیں “ جیسے الفاظ کہتے ہیں تو لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں ، ہوسکے تو کبھی بھی کسی کو اندھیرے میں نہ چھوڑیں کوئی نہ کوئی مناسب جواب اور راستہ بتادیں ، اسے ایک مثال سے سمجھئے : کسی نے امام صاحب سے پوچھا کہ “ کاتبینِ وحی (وحی لکھنے والوں) کی تعداد کتنی ہے اور نام کیا کیا ہیں؟ “ اس سوال کے جواب چار طرح ہوسکتے ہیں : (1)معلوم نہیں (2)تفصیل تو یاد نہیں البتہ آپ سیرت کی کتاب مدارج النبوۃ مترجم یا سیرتِ مصطفیٰ میں دیکھ لیں اس میں لکھے ہوئے ہیں (3)ابھی یاد نہیں کتاب سے دیکھ کر شام میں یا کل بتاتا ہوں (4)مکمل تفصیل بتادی جائے۔ چوتھا جواب اگرچہ احسن ہے لیکن مشکل ہے ، جبکہ دوسرا اور تیسرا جواب بہت مناسب ہے ، کم از کم ہر امام کو اس انداز پر تو لازمی ہونا چاہئے۔
* کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی مخالف پر اعتراض کرنے ، اپنے موقف کی تائید لینے یا اپنا کوئی مذموم مقصد پورا کرنے کے لئے امام صاحب سے گُھما پِھرا کر سوال کرتے ہیں ، امام صاحب کو اس حوالے سے بیدارمغز ہونا چاہئے کہ علاقے یا ملک میں چلنے والے اختلافات وغیرہ سے کچھ ناکچھ آگاہ رہیں تاکہ رائے کے اظہار میں محتاط رہ سکیں۔ سیاسی شخصیات کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب دینے سے پرہیز کریں ، ایک نمازی کسی دوسرے نمازی کے بارے میں اعتراضانہ بات کرے تو ہاں میں ہاں نہ ملائیں ، سابقہ امام یا کمیٹی کے بارے میں یا موجودہ کمیٹی کے بارے میں کسی بھی اعتراض یا چال کا حصہ نہ بنیں ، کوئی اعتراض کرے تو جھڑکنے کے بجائے پیار سے جواب دے ، بے جا اعتراض ہو تو مناسب انداز سے بات کو ٹال دے۔ مؤذن ، خادم اور مسجد کے دیگر عملے کے بارے میں بھی کسی اختلاف کا حصہ نہ بنیں۔
* کبھی کوئی کسی سنی عالم یا سابقہ امام یا کسی مفتی وغیرہ کا نام لے کر کوئی مسئلہ بیان کرے اور وہ مسئلہ غلط ہو تو بجائے کسی پر بھی اعتراض کرنے کے صرف درست مسئلہ بتادیں اور پوچھنے والے کو یہی کہیں کہ آپ کو سننے میں خطا ہوئی ہو گی ، مسئلہ یوں نہیں یوں ہے ، کسی سنی مفتی ، عالم یا سابقہ امام صاحب پر اعتراضات وتنقید کا حصہ نہ بنیں۔ (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…ناظم ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments