کتابِ زندگی
9حقیقتیں(Realities)(قسط:03)
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2023
بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلے تو بلی غائب نہیں ہوجاتی بلکہ وہ جیتی جاگتی حقیقت(Reality) کی صورت میں سامنے موجود ہوتی ہے، نقصان بہرحال کبوتر کا ہوتا ہے جو بلی کا آسان شکار بن جاتا ہے، یہی معاملہ انسان کے ساتھ بھی ہے کہ حقیقت سے آنکھیں چُرانے پر وہ حقیقت ختم نہیں ہوجاتی، ہماری زندگی ایک حقیقت ہے جسے محض تصورات، خیالات اور خوابوں کے سہارے نہیں گزارا جاسکتا، اس لئے ہمیں اپنا اندازِ زندگی (Lifestyle) حقیقت کے قریب رکھنا چاہئے، یہی راہِ سلامت اور سببِ راحت ہے۔’’حقیقتیں‘‘ کے عنوان پر مضمون کی تیسری قسط آپ کے سامنے ہےجس میں مزید 9 حقیقتوں کا بیان ہے، چنانچہ
(31) اتفاق میں برکت ہے
(Unity brings blessings)
گھر کے افراد ہوں یا خاندان یا کمیونٹی، آفس ہو یا کاروبار، تحریک ہو یا تنظیم! اتفاق واتحاد (Unity) بہت سے فائدے پہنچاتا اور کئی نقصانات سے بچاتا ہے۔اتفاق کی فضا قائم رکھنے کا درس ہمیں قراٰنِ کریم میں بھی ملتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: (وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ)
ترجمۂ کنزُ العرفان:اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں بے اتفاقی نہ کرو ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا (قوت) اُکھڑ جائے گی۔([1]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
نیز مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد کی تعلیم ارشاد فرماتے ہوئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں۔([2])
حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے تعلقات کی مثال دیتے ہوئے فرمایا :”مسلمانوں کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتاہے۔([3])
شیخ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: اتفاق و اتحاد(Unity) کی مثال دھاگے کی طرح ہے کہ دھاگا اکیلا ہو تو معمولی سے جھٹکے سے ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر بہت سارے دھاگوں کو ملا کر رسی بنالی جائے تو یہ اتنے مضبوط ہوجاتے ہیں کہ ان کے ذریعے بڑی بڑی چیزوں کو باندھا یا کھینچا جاسکتا ہے۔([4])
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
(32)ہر نعمت والے سے حسد کرنے والے ہوتے ہیں
(Every blessing draws envy)
کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہماری خوبیوں، کامیابیوں اور نعمتوں پر خوش ہوتے ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو حسد (Jealousy) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس حقیقت کا بیان نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مبارک زبان سے ان الفاظ میں فرمایا ہے:کُلُّ ذِیْ نِعْمَۃٍ مَحْسُوْدٌ یعنی ہر نعمت والے سے حَسَد کیا جاتا ہے۔([5])
حسد کہتے ہیں کسی کی دینی یا دُنیاوی نعمت کے زَوال (یعنی اس سے چھن جانے) کی تمنا کرنایا یہ خواہش کرنا کہ فُلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔([6]) حَسَدکرنے والے کو ’’حاسِد (Jealous) ‘‘ اورجس سے حَسَد کیا جائے اُسے ’’محسود“ کہتے ہیں۔حسد کے کئی اسباب ہوتے ہیں مثلاً کسی کے مالدار ہونے، اس کے پاس اچھا گھر یا سواری ہونے،اس کی خوبصورتی،آفس وغیرہ میں اس کی ترقی ہونے، عزت وشہرت یااس کی مہارت کی وجہ سے کوئی شخص اس کے حسد میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
حاسد نقصان پہنچاسکتا ہے:حسد کے نقصانات کا شکار سب سے پہلے خود حاسد ہوتا ہے کہ وہ حسد کی آگ میں جلتا بُھنتا رہتا ہے اور دل میں اس طرح کی خواہشیں(Desires) رکھتا ہے کہ محسود کے ہاں چوری یاڈکیتی ہوجائے یا اس کی دُکان ومکان میں آگ لگ جائے،اس سے کوئی ایسی غَلَطی ہوجائے کہ یہ ذلیل ورُسوا ہوجائے۔محسود کو جتنی خوشی ملتی ہے اُتنا ہی حاسد کے غم وغصے اور جلن میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر وہ اپنی کیفیت کسی سے شئیر بھی نہیں کرسکتا کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟
لیکن کچھ حاسدین ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اپنی منفی تسکین (Negative satisfaction) کے لئے محسود کو نقصان پہنچانے کی ٹھان لیں تو ان کے شر سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حضرت علامہ عبدالرء ُوف مناوی شافعی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حسد حاسد کو محسود کی غیبت کرنے اوربُرا بھلا کہنے تک لے جاتا ہے بلکہ وہ اس کا مال ضائع کرنے اور جان سے مارنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور یہ سب کام ظُلم ہیں۔([7])
ان کاموں کے علاوہ حاسد محسود کو اس نعمت سے محروم کروانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے جیسے: ٭خود سامنے آئے بغیر محسود کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلا کر اسے بدنام کرکے ساکھ خراب کرسکتا ہے٭اس کے ضروری ڈاکومنٹس ادھر ادھر غائب کرکے اسے نوکری میں ترقی یا امتحان میں کامیابی سے روک سکتا ہے ٭اسے کاروباری، معاشی اور معاشرتی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے ٭اسے پریشان کرنے کے لئے عملیات،جادوٹونا وغیرہ کروا سکتا ہے۔
حاسِد کوبھی غور کرنا چاہئے کہ محسود کو نیچا دکھانے کے جنون میں گناہوں کا بہت بھاری بوجھ اس کے کندھوں پر آجاتا ہے جس کی سزا جہنم کی آگ میں جلنے کی صورت میں مل سکتی ہے، اس لئے فوری طور پر توبہ کرلینی چاہئے۔
حفاظتی اقدامات(Safety measures):اللہ پاک نے جس کو اپنی کثیر نعمتوں سے نوازا ہو، اسے ربِّ کریم کا شکر ادا کرنے کے ساتھ حاسدین کے شر سے بچنے کے لئے حفاظتی اقدامات بھی کرنے چاہئیں،مثلاً:
(1)ربِّ کریم کی بارگاہ میں دعا کرے۔دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، حاسد کے شر سے بچنے کی دعا کی ترغیب قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں دی گئی ہے، چنانچہ سورۂ فلق میں ہے: (وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵))
ترجمۂ کنز الایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے۔تفسیر نسفی میں اس آیت کے تحت ہے:جب حاسد اپنے حسد کو ظاہر کردے اور حسد کے تقاضوں پر عمل کرنے لگے تو اس کے حسد سے پناہ مانگی جائے۔ حسد پہلا گناہ ہے جو آسمان پر ہوا کہ ابلیس نے (حضرت آدم علیہ السّلام) سے کیا اور زمین پر بھی پہلا گناہ حسد ہی ہوا جس کے نتیجے میں قابیل نے اپنے بھائی حضرت ہابیل رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا تھا۔([8])
(2) اس بات کو اپنے دل میں مضبوطی سے جما لے کہ نفع و نقصان تقدیر (Destiny) کے لکھے سے ہی ہوتا ہے،حاسدین لاکھ نقصان پہنچانا چاہیں،نہیں پہنچا سکتے جب تک تقدیر میں نہ لکھاہو، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: یقین رکھو کہ اگرپوری اُمّت اس پر متفق ہوجائے کہ تم کو نفع پہنچائے تو وہ تمہیں کچھ نفع نہیں پہنچاسکتی مگر اس چیز کا جو اللہ کریم نے تمہارے لئے لکھ دی ہے، اور اگر وہ اس پر متفق ہو جائیں کہ تمہیں کچھ نقصان پہنچائیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر اس چیز کا جو اللہ پاک نے لکھ دی ہے، قلم اُٹھ چکے ہیں اوردفترخشک ہوچکے ہیں۔ ([9])
(3)سازشی تھیوریوں پر توجہ نہ دے۔ بعض لوگوں کو تھوڑا سا بھی نقصان پہنچ جائے وہ اس کے پیچھے کسی حاسد کی سازش ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں، ایسے لوگوں کا شک مزید پکا ہو جاتا ہے جب کوئی ان کو بتاتا ہے کہ فلاں شخص تمہارے کاروبار کے پیچھے لگا ہوا ہے یا آفس میں فلاں شخص افسران کو تمہاری شکایتیں پہنچا رہا ہے۔ ایسوں کو چاہئے کہ ہرکسی پر یقین کرکے ٹینشن نہ لیں۔
(4)کسی فردِ معین (Certain person) کو حاسد ڈکلئیر نہ کرے کیونکہ حَسَد باطِنی امراض میں سے ہے اور اس کا تعلُّق دل سے ہے، کسی کے دل کی کیفیات کی یقینی معلومات (Certain information) ہمیں نہیں ہوسکتی اگرچِہ کبھی کبھار واضح قَرائن( یعنی بالکل صاف علامتوں) سے بھی حَسَد کا اظہار ہو جاتا ہے مگر اکثر لوگ قِیاس (اندازے) ہی سے کسی کو حاسِد کہہ دیا کرتے ہیں۔([10])
نوٹ:حسد کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کا 97صفحات کا رسالہ ’’حسد ‘‘پڑھ لیجئے۔
(33)تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہوجاتا ہے
حضرت شیخ سعدی رحمۃُ اللہ علیہ(وفات:691ہجری) فرماتے ہیں :تھوڑا تھوڑا بہت اور قطرہ قطرہ سیلاب ہوجاتا ہے،غلے کا ڈھیر (Heap of grain)دانے دانے پر مشتمل ہوتا ہے۔
(34) کام ”کرنے “سے ہوتا ہے
امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: کام صرف چاہنے سے نہیں ”کرنے“ سے ہوتا ہے۔
(35)غلطی مان لینے سے جان جلدی چھوٹ جاتی ہے
غلطی مان لینے میں چند سیکنڈ لگتے ہیں اور بات ختم ہوجاتی ہے، غلطی کا دفاع (Defense) کرنے میں گھنٹوں گزر سکتے ہیں، آخر کار غلطی ماننی پڑتی ہے۔
(36)پرندے اپنے بچّوں کو اُڑنے کا فن سکھاتے ہیں
پرندے اپنے بچّوں کے لئے خوراک کے گودام (Storage) نہیں بناتے بلکہ اُڑنے کا فن سکھاتے ہیں۔ ہمیں بھی اولاد کے لئے صرف مال جمع کرنے کے بجائے ان کی اسکلز بڑھانے پر بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں۔
(37) خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی قبول کرنا پڑتی ہیں
انسان میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہے، اس لئے ہمیں کسی کو اس کی خامیوں سمیت قبول کرنا ہوگا۔
(38)کسی کو خوش دیکھ کر غمگین ہونا بے وقوفی ہے
کسی کو خوش دیکھ کر غمگین ہونا بے وقوفی ہے،اس سے اسے کیا فرق پڑے گا البتہ ہم اتنی دیر کے لئے خوشیوں سے محروم رہیں گے۔
(39)نوٹ(Note) کریں گے تو آپ بھی نوٹ ہوں گے
دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتیں نظر انداز (Ignore)کرنا سیکھیں ورنہ لوگ بھی آپ کی چھوٹی چھوٹی باتیں جمع کرنا شروع کردیں گے۔ (بقیہ اگلی قسط میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(اسلامک اسکالر، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)، کراچی)
Comments