فریاد
رشتوں کو پہچانئے
*دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2023ء
ہم چھوٹے تھے تو ہمارے والد صاحب (مرحوم) عید کے موقع پر ہمیں یعنی میرے بڑے بھائی (مرحوم) کو اور مجھے اپنے رشتہ داروں کے گھر لے جایا کرتے تھے، شروع میں میرے والد صاحب کے پاس سائیکل ہوتی تھی تو وہ ہمیں رشتہ داروں کے ہاں سائیکل پر لے جاتے،پھر کچھ عرصہ بعد بائیک آگئی تو بائیک پر لے جاتے، اس کے بعد والد صاحب کے پاس گاڑی آگئی تو اس پر لے جانے لگے، یوں ہمیں اپنے رشتہ داروں کے ہاں لے کر جانے کا یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا یہاں تک کہ ہم بڑی عمر کے ہوگئے۔اس سے جہاں ہمیں اپنے رشتہ داروں کی پہچان ہوا کرتی کہ فلاں رشتے میں ہمارے کیا لگتے ہیں، وہیں ساتھ ہی اس سے ہمارا یہ ذہن بھی بن رہا ہوتا کہ اہم مواقع پر رشتہ داروں کے ہاں جانا چاہئے۔
پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے دینِ اسلام کی پیاری تعلیمات بھی یہی ہیں کہ اپنے رشتہ داروں کی پہچان رکھی جائے، چنانچہ اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:
تَعَلَّمُوا مِنْ اَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ اَرْحَامَكُمْ، فَاِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْاَهْلِ مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ، مَنْسَاَةٌ فِي الْاَثَرِ
تم اپنا نسب اتنا سیکھوکہ جس سے تم رشتے داروں سے صلۂ رحمی کرسکو ،کیونکہ رشتہ جوڑنا گھر والوں میں محبت، مال میں برکت (اور) عمر میں درازی (کا ذریعہ) ہے۔ ([1])
اس حدیثِ مبارکہ میں ”اَنْسَاب“ سے مراد آباءو اَجدا، پھوپھیاں، خالائیں اور دیگر قریبی رشتہ دار ہیں۔([2])حضرت علامہ علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کے شروع کے الفاظ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تَعَرَّفُوا اَقَارِبَكُمْ مِنْ ذَوِي الْاَرْحَامِ لِيُمْكِنَكُمْ صِلَةَ الرَّحِمِ یعنی تم اپنے ذی رحم رشتہ داروں کی پہچان رکھو تاکہ تمہارے لئے صلہ ٔرحمی کرنا ممکن ہو۔([3])مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہلکھتے ہیں: اپنے دَدْھیال (یعنی دادا کے خاندان) نَنْھیال (یعنی نانا کے خاندان) کے رشتوں کو یاد رکھو اور یہ بھی دھیان میں رکھو کہ کس سے ہمارا کیا رشتہ ہے تاکہ بقدر رشتہ ان کے حق ادا کرتے رہو،اگر تم کو رشتہ داروں کی خبر ہی نہ ہوگی تو ان سے سلوک کیسے کرو گے۔([4])صدرُ الشّریعہ بَدرُ الطریقہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں:صِلَۂ رِحم کے معنیٰ رِشتہ کو جوڑنا ہے یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ صِلَۂ رِحم واجب ہے اور قَطْعِ رِحم(یعنی رشتہ توڑنا) حرام ہے۔صلۂ رحم کی مختلف صورتیں ہیں: ان کو ہدیہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو کسی بات میں تمہاری اِعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کرنا، انھیں سلام کرنا، ان کی ملاقات کو جانا، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا ان سے بات چیت کرنا ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا۔ (آپ مزید فرماتے ہیں:) صِلَہ ٔرِحمی(رشتے داروں کے ساتھ اچھا سُلوک ) اِسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو، یہ چیز تو حقیقت میں مُکافاۃ یعنی اَدلا بدلا کرنا ہے کہ اُس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اُس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آیا تم اُس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتاً صِلَۂ رِحم (یعنی کامِل دَرَجے کا رشتے داروں سے حسنِ سلوک)یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو، وہ تم سے جدا ہونا چاہتا ہے، بے اِعتنائی (بے پروائی) کرتا ہے اور تم اُس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی مراعات (یعنی لحاظ ورعایت) کرو۔([5]) بہرحال رشتوں کے مَراتِب کے اعتبار سے سب ہی رِشتے داروں کے ساتھ ہمیں اچھا سلوک کرنا چاہئے، رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی اور رِزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ پاک سے ڈرتا رہے اور رِشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔([6])
اللہ پاک کا شکر ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے اور ایسے وطن میں رہتے ہیں کہ جہاں رشتوں میں خوبصورتی اور محبت پائی جاتی ہے، جبکہ کثیر مَمالِک اس خوب صورت کلچر اور اس عظیم نعمت سے محروم ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے بہت سارے لوگ جہاں دیگر بہت ساری چیزوں میں اپنی تہذیب وتمدن اور اسلامی اَقدار کو بھولتے جارہے ہیں وہیں رشتوں میں پیار اور محبت والا اہم معاملہ بھی اس کا شکار ہوچکا ہے، آج کی ینگ جنریشن کو جن چند رشتوں کی پہچان ہوتی ہے ان کے ساتھ بھی انہیں بات چیت کئے اور ان کے احوال معلوم کئے ہوئے بھی بسااوقات مہینوں گزر جاتے ہیں، عام دنوں میں ان کے ہاں جانا تو دُور کی بات، اَہم مواقع مثلاً عیدین اور شادی غمی وغیرہ پر بھی کئی لوگ اپنے رشتہ داروں کے ہاں نہیں جاتے، خصوصاً جب رشتہ دار غربت اور محتاجی کی زندگی گزار رہے ہوں تو پھر ان کے ہاں جانے یا ان کو اپنے ہاں دعوت پر بلانے سے بھی لوگ کتراتے ہیں، یوں ہی مصروف زندگی کے نام پر یا پھر کسی اور وجہ سے آج لوگ اپنے رشتہ داروں کو بھُلا چکے ہیں، گِنے چُنے چند رشتوں کے علاوہ آج کئی لوگوں کو اپنے خاندان کے بہت سارے لوگوں کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان سے کوئی رابطہ واسطہ ہوتا ہے، جبکہ ہمارے معاشرے میں کئی لوگ تو ایسے بھی ہیں جو رشتوں کو جوڑنے کے بجائے چھوٹی چھوٹی باتوں پر رشتے توڑ کے بیٹھ جاتےہیں، اور پھر نہ صرف خود اپنے رشتہ داروں سے بات چیت ختم کر دیتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی اور اپنے دیگر رشتہ داروں کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ فلاں سے تم بھی تعلق ختم کردو ورنہ ہم تم سے بھی تعلق ختم کردیں گے! حالانکہ رشتہ جوڑنے کی چیز ہے نہ کہ توڑنے کی،2 فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے(1)رشتہ عرشِ الٰہی سے لپٹ کر یہ کہتا ہے: جو مجھے ملائے گا، اﷲپاک اس کو ملائے گا اور جو مجھے کاٹے گا، اﷲپاک اسے کاٹے گا۔([7]) (2)جس قوم میں قاطعِ رحم(یعنی رشتہ کاٹنے والا) ہوتا ہے، اس پر رحمتِ الٰہی نہیں اُترتی۔([8])
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے رشتوں کی پہچان رکھئے اور اپنی اولاد کو بھی رشتوں کی پہچان کروائیے،رشتے توڑنے کے بجائے جوڑنے کی کوشش کیجئے، اللہ پاک ہمیں رشتوں کی پہچان رکھنے، رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ رشتوں کو جوڑکر رکھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یاالٰہی! رشتے داروں سے کروں حُسنِ سُلُوک
قَطْعِ رِحْمی سے بچوں اِس میں کروں نہ بھول چُوک
Comments