مدنی مذاکرے کے سوال جواب
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2023ء
(1)سَردی سے بچنے کی دُعا کرنا
سُوال: کیا سردی سے بچنے کی دُعا کرسکتے ہیں؟
جواب: جی ہاں! دُعا بھی کرسکتے ہیں کہ اللہ کریم ہمیں اِس سردی کی ہَلاکت خیزی سے بچائے اورہمیں اِس سے کوئی بڑا نقصان نہ پہنچے۔ ایک فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں یہ بھی ہے: جب سخت سردی ہوتی ہے تو بندہ کہتا ہے: ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ آج کتنی سخت سردی ہے! اے اللہ! مجھے جہنَّم کی زَمْھَرِیر سے بچا۔ اللہ پاک جہنَّم سے کہتا ہے: میرا بندہ مجھ سے تیری زَمْھَرِیر سے پناہ مانگ رہا ہے اور میں نے تیری زَمْھَرِیر سے اسے پناہ دی۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: جہنَّم کی زَمْھَرِیر کیا ہے؟ فرمایا: وہ ایک گڑھا ہے جس میں کافِر کو پھینکا جائے گا تو سخت سردی سے اس کا جسم ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا۔
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السُنی، ص136،حدیث:307-مدنی مذاکرہ، 10ربیع الآخر شریف 1441ھ)
(2)اپنی وَصیّت میں کسی کو چہرہ دیکھنے سے منع کرنا کیسا؟
سوال:اگر کوئی یہ وَصیّت کر جائے کہ جب میں مَر جاؤں تو فلاں شخص میرا چہرہ نہ دیکھے کیا ایسی وَصیّت کرنا دُرُست ہے؟
جواب:اِس طرح کی وَصیّت کرنے میں غصے کا اِظہار ہے۔ بعض لوگ نادانی میں کہہ دیتے ہیں کہ میں تیرے جنازے میں نہیں آؤں گا یا یوں کہتے ہیں کہ جب میں مَر جاؤں تو میرا چہرہ دیکھنے مت آنا۔ایسا کہنا دُرُست نہیں ہے البتہ چہرہ سب کو دیکھنا جائز ہے۔اگر میّت کی کوئی غلطی ہو تب بھی مُعاف کر دینا چاہئے۔ایک مَرتبہ میں کسی میّت میں گیا ،سامنے میّت رکھی ہوئی تھی اور لوگ میّت کا چہرہ دیکھنے آرہے تھے کہ کسی کی آمد پر اچانک شور مَچ گیا کہ تم کیوں آئے ہو؟ تم باہر نکلو، تمہیں میّت کا چہرہ نہیں دیکھنے دیں گے۔ ظاہر ہے ایسا کرنا آنے والے کی سخت دل آزاری کا باعث ہوا ہوگا، اللہ کریم سب کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
(مدنی مذاکرہ، بعد نمازِ عصر، 26رمضان شریف 1441ھ)
(3)ناگہانی آفات کے بعد نماز کی طرف رغبت
سُوال: ناگہانی آفات (مثلاً زلزلہ وغیرہ) کے بعد لوگ عُموماً نمازوں کی طرف راغِب ہوتے ہیں، لیکن بعد میں وُہی سُستی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، نمازوں کی مستقل عادت بنانے کے لئے کیا کیا جائے؟
جواب: لوگوں کو عارِضی طور پر جوش آجاتا ہے، لیکن چونکہ شیطان پیچھے لگا ہوتا اور نفس تنگ کررہا ہوتا ہے، اِس لئے حالات سازگار ہوتے ہی دوبارہ گُناہوں پر دلیر ہوجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے، حادِثہ ہو یا نہ ہو، اللہ پاک کو راضی کرنے کےلئے ہمیں نماز پڑھنی ہی پڑھنی ہے۔ نہیں پڑھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ زلزلے آنا اور عمارتیں گرجانا یہ سب تکلیفیں کچھ بھی نہیں ہیں، جہنّم کا عذاب بہت خطرناک ہے۔ اللہ کريم ہم کو جہنّم کی آواز سُننے سے بھی محفوظ رکھے۔(مدنی مذاکرہ، 29محرم شریف 1441ھ)
(4)اِحسان جتانا حکم قراٰن کی نافرمانی ہے
سُوال: مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے اگر کوئی ہماری مَدَد کرے تو کیا ہمیں قبول کرنی چاہئے؟ کیونکہ بعض اَوقات لوگ مَدَد کرکے جتاتے ہیں اور اِدھر اُدھر بتاتے ہیں۔
جواب: اگر قَبول کئے بغیر گُزارا ہورہا ہے تو پھر قَبول نہ کیا جائے، کیونکہ ظاہِر ہے کہ کسی کا اِحسان اُٹھانے میں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ آدمی اُس کے سامنے جھکا رہے گا اور اُس کی غلط بات کی اِصلاح کرنے کی بھی ہمت نہیں کرے گا۔
جو لوگ دوسروں کی مَدَد کرکے اُنہیں یا دیگر لوگوں کو سُناتے ہیں وہ بہت غلط کرتے ہیں اور قراٰنِ کریم کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتا ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر۔(پ3، البقرة:264) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کسی کا اِحسان کیوں اُٹھائیں، کسی کو حالات کیوں بتائیں
تُم ہی سے مانگیں گے تُم ہی دوگے، تمہارے در سے ہی لَو لگی ہے
(مدنی مذاکرہ، 10ربیع الآخر شریف 1441ھ)
(5)مسجد کے اِمام کو پیش امام کیوں کہتے ہیں ؟
سُوال: مسجد کے اِمام کو پیش اِمام ہی کیوں کہتے ہیں؟
جواب: پیش اِمام کی طرح فارسی میں دِیگر اَلفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں مثلاً پیش لفظ، عام طور پر یہ کتاب کے شروع میں لکھا ہوتا ہے، پیشِ نظر، پیش رَفت وغیرہ۔ پیش کے معنیٰ ”آگے“ کے ہیں تو چونکہ اِمام، پیش یعنی آگے ہوتا ہے پیچھے نہیں ہوتا اِس لئے غالباً اِمام کو پیش اِمام کہتے ہوں گے(اور اس کو ”پیش نماز“ بھی کہتے ہیں) ۔ اِمام نماز پڑھاتے ہوئے مقتدیوں سے آگے ہی ہوتا ہے اور اگر مقتدی اِمام سے آگے ہو جائے تو اس کی نماز ہی نہ ہو گی اس لئے ضَروری ہے کہ جو جماعت سے نماز پڑھ رہا ہو وہ امام کے پیچھے رہے اور اِمام پیش یعنی آگے رہے۔(مدنی مذاکرہ، 5ربیع الاول شریف 1441ھ)
(6)غیر مسلم سے جھوٹ بولنا کیسا؟
سُوال: اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم سے جُھوٹ بولے تب بھی گُناہ مِلے گا؟
جواب: غیر مسلم سے بھی جُھوٹ بولنے کی اِجازت نہیں ہے۔ نہ جُھوٹ بول سکتے ہیں، نہ دھوکا دے سکتے ہیں، نہ گالیاں بَک سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ناحق مار پیٹ سکتے ہیں۔ ہمارا اِسلام اَمْن کا پیغام دیتا ہے اور ہمیں حُسنِ اَخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہمیں جو بھی کرنا ہے شریعت کے اَحکام کے مطابق ہی کرنا ہے۔(مدنی مذاکرہ، 10ربیع الاول شریف 1441ھ)
(7)بچّے کی پیدائش پرمٹھائی تقسیم کرنا
سُوال: کیا بچّے کی پیدائش پر مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنے کی اجازت ہے؟
جواب: جی ہاں! بالکل جائز ہے۔ چونکہ خوشی ہوتی ہے تو اس لئے تقسیم کی جاتی ہے، اِس میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے یہاں شاید اس کا رواج بھی ہے۔ البتہ بعض اوقات مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ’’مٹھائی کھلاؤ!‘‘ اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسی فرینڈ شپ اور ایک دوسرے کو کھلانے کا سلسلہ ہے تب تو یہ اور چیز ہے، لیکن ایسا ہے کہ اگر یہ نہیں کھلائے گا تو اگلا بدنام کرے گا اورکنجوس مکھی چوس وغیرہ بولے گا، تو اس لئے یہ اپنی عزّت بچانے اور اس کے شر (یعنی بُرائی) سے بچنے کی خاطر مٹھائی کِھلاتا ہے تو مانگنے والے کے حق میں رِشوت ہوگی اور کھلانے والا گناہ گار نہیں ہوگا۔(فتاویٰ رضویہ، 17/300ملخصاً-مدنی مذاکرہ، 4ربیع الآخر شریف 1441ھ)
Comments