*مفتی محمد ہاشم خان عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2023
(1)ستر ماؤں سے زیادہ محبت؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک جملہ زبان زدِ عام ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے محبت فرماتا ہے‘‘ سوال یہ ہے کہ
(1)کیا یہ جملہ کسی حدیث پاک میں آیا ہے؟یا لوگوں کی زبان پر یونہی مشہور ہو گیا ہے ؟
(2)اس جملے کو بغیر حدیث کہے بیان کرنا جائز ہے یانہیں ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)سوال میں بیان کردہ جملہ بہت تلاش کے باوجود کسی حدیث میں نہیں مل سکا ، یہ بغیر کسی سند کے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہو گیا ہے، لہٰذا جب تک کوئی مستند حوالہ نہ ملے اسے بطورِ حدیث بیان نہ کیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارحم الراحمین ہے وہ اپنے بندوں پر فضل و کرم فرماتا ہے اس کی رحمت اور اپنے بندوں سے محبت کو بیان کرنے کے لیے اسی جملے کو بیان کرنا تو ضروری نہیں ، بے شمار آیات و احادیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور اپنے بندوں سے محبت فرمانے کا ذکر ہے، چاہیے کہ وہ آیات و احادیث بیان کی جائیں ۔
ایسی بہت سی احادیث کتبِ احادیث میں موجود ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی کو بیان کیا گیا ہے، ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو بیان کریں، اور جن روایات کو بیان کرنے سے علمائے کرام منع فرمائیں انہیں بیان کرنے سے باز رہیں ۔
(2)اس جملے کو بغیر حدیث کہے کثرتِ محبت کے طور پر بیان کرنے میں حرج نہیں کہ ستر (70) عددِ کثرت ہے ، عام محاوروں میں یہ عدد کسی چیز کی زیادتی و کثرت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح بیان کرتے ہوئے بھی اس کی وضاحت کر دینی چاہیے کہ یہ حدیث نہیں ، کیونکہ عموماً لوگ اسے حدیث سمجھ لیتے ہیں اور پھر حدیث کہہ کر آگے بیان کرتے ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ میں ہے :’’ستر :70 عددِ کثرت۔ بہتیر ے۔ سینکڑوں۔ بیسیوں‘‘ (فرہنگِ آصفیہ، جلد2، صفحہ 32،مطبوعہ لاہور)
آن لائن اردو ڈکشنری ریختہ میں ستر (70)کا ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے :’’اظہارِ کثرت کے لیے، بہت سے، ہزاروں‘‘
https://www.rekhtadictionary.com/meaning-of-sattar?lang=ur
اس معنی کے اعتبار سےاس جملے (اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے محبت فرماتا ہے) کا معنی یہ بنے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے سے بہت زیادہ محبت فرماتا ہے ۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)کنچے کھیلنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گلی محلوں میں بچے اور نوجوان بانٹے کھیلتے ہیں جن کو کَنچے بھی کہا جاتا ہے۔ بانٹے کھیلنے کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے دو صورتیں درج ذیل ہیں:
(1)ایک بچہ اپنے ہاتھ کے اندر کچھ بانٹے لےکر دوسرے سے پوچھتا ہے کہ جفت ہے یا طاق؟ اگر دوسرا صحیح بتادے تو پوچھنے والا ہاتھ میں موجود سارے بانٹے دوسرے کو دے دیتا ہے،اور اگر غلط بتائے، تو دوسرے کو اتنی تعداد میں بانٹے دینے پڑتے ہیں۔
(2)بانٹے کے ذریعے بچے نشانہ بناتے ہیں، اگر نشانہ صحیح لگ جائے تو وہ دوسرے سے طے شدہ بانٹے وصول کرتا ہے، اور دونوں صورتوں میں ایک وقت آتا ہے کہ ایک ہار کر خالی ہو جاتا ہے اور دوسرے کے پاس جیت کر بانٹے ڈبل ہو جاتے ہیں۔کیا یہ دونوں صورتیں قمار میں شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ بانٹا کھیل کی دونوں صورتیں جوا اور ناجائز وحرام ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ :
قرآن مجید میں مَیْسر کو حرام فرمایا گیا ہے اور مفسرین، محدثین، شارحینِ حدیث، فقہاء سب نے ہر قسم کا جُوا مَیْسر میں شامل مانا ہے تو جُوا بنصِ قرآن ناجائز وحرام ٹھہرا۔ اور کھیلوں میں جوئے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ غالب ہونے والے کےلئے مغلوب ہونے والے شخص سے کچھ لینے کی شرط لگادی جائے اور اسی ناجائز وحرام جوئے میں انہی علما نے بچوں کا اخروٹ والا کھیل بھی شامل بتایا ہے۔ صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اور اب بھی بعض مقامات پر اخروٹ کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور یہ بانٹوں کا کھیل اخروٹ کے کھیل کی طرح ہے۔ پہلے جب بانٹے نہیں ہوتے تھے تو اخروٹ کے ساتھ کھیلا جاتا تھا اور اب بانٹوں کے ساتھ، تو جو حکم اخروٹ کے کھیل کاہے وہی بانٹوں کے کھیل کا حکم ہوگا لہٰذا جس طرح اخروٹ کا کھیل جوا اور ناجائز وحرام ہے ایسے ہی بانٹوں کا کھیل بھی جوا اور ناجائز وحرام ہے جبکہ غالب ہونے والے کےلئے مغلوب ہونے و الے سے کچھ لینے کی شرط لگائی جائے اور سوال میں بیان کردہ دونوں صورتوں میں یہی خرابی ہے کہ غالب ہونے والے کے لئے مغلوب ہونے والے سے بانٹے لینے کی شرط لگائی جاتی ہے لہٰذا سوال میں مذکور بانٹا کھیل کی دونوں صورتیں جوا اور ناجائز وحرام ہیں۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ خود کو اور اپنی اولاد کو اس حرام کام سے بچائیں۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
اس جواب پر ایک شبہ یہ وارد کیا جاسکتا ہے کہ اخروٹ تو واضح طور پر مال ہے جبکہ بانٹوں کا مال ہونا واضح نہیں تو پھر اس کے لین دین کی شرط جوا کیسے بن جائےگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اخروٹ مال ہے ایسے ہی بانٹا بھی مال ہے کہ بانٹا شیشے سے بنتا ہے اور شیشہ واضح طور پر مال ہے اور بانٹوں کا لہو ولعب کےلئے ہونا اسے مال ہونے سے خارج نہ کردےگا ورنہ اخروٹ بھی مال نہ رہے اور فقہاء نے گائے ،بیل ،ہاتھی، گھوڑا، اور ان کے علاوہ دوسرے کھلونوں کے متعلق جو یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی اسے توڑدے تو اس پر تاوان نہیں اس لئے کہ اس کی کوئی قیمت نہیں وہاں کھلونوں کی تخصیص فرمائی کہ وہ مٹی کے ہوں تو یہ حکم ہے اور اگر لکڑی یا کسی دھات کے ہوں تو ان کو توڑنے سے لکڑی اور دھات کا توڑنے والے پر تاوان لازم ہوگا۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شیخ الحدیث و مفتی دارالافتاء اہل سنت، لاہور
Comments