حضرت عِکرمہ  رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہما

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2023

 8 ہجری میں فتحِ مکہ کے کچھ دنوں بعد حضرت عِکْرِمہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے (خوش ہو کر) ارشاد فرمایا: تم آج جو مانگو گے اور وہ میرے پاس ہوا تو میں ضرور تمہیں دوں گا۔([1]) حضرت عکرمہ نے عرض کی: میں آپ سے اتنا چاہتا ہوں کہ میں نے جس جس عداوت میں آپ سے دشمنی رکھی، جو جو قدم اس عداوت میں چلاجس بھی مقام پر آپ سے لڑائی کی، آپ کے بارے میں جو بات آپ کے سامنے یا غیر موجودگی میں کہی آپ ان سب میں میرے لئے بخشش کی دعا کردیجئے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے یوں دعا کی: اے اللہ!عکرمہ نے جس جس عداوت میں ہم سے دشمنی کی جوجو قدم اس عداوت میں تیرے نور کو بجھانے کے لئے چلا ان سب کو معاف کردے اور میرے سامنے یا میری غیر موجودگی میں جو بات میرے بارے میں کہی، تُو عکرمہ کی ہر اس خطا کو معاف کردے، یہ کلمات سُن کر آپ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! اب میں خوش ہوں۔([2])

ایمان لانے کا دلچسپ واقعہ:پیارے اسلامی بھائیو! حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں جھوٹے معبود بناتے اور انہیں بیچا کرتے تھے،([3]) لیکن آپ کے دل میں ایک اللہ پر ایمان لانے کا خیال کیسے پیدا ہوا؟ اس کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر مکہ چھوڑ دیا: میں ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا جنہوں نے میرے باپ کو قتل کیا ہو پھر آپ سمندر کے کنارے آئے اور اپنا سامان کشتی میں رکھ دیا، کسی نے آپ کو سمجھایا: آپ ہمارے اور اس شہر کے سردار ہیں آپ ایسی جگہ (کیوں) جارہے ہیں جہاں آپ کی کوئی پہچان نہیں ہے، لیکن آپ نے اس کی بات نہ مانی اور سفر پر روانہ ہوگئے،([4]) حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی غیر موجودگی میں آپ کی زوجہ حضرت اُمِّ حکیم رضی اللہ عنہا نے اِسلام قبول کرلیا اور آپ کے لئے بارگاہِ رسالت سے اَمان (یعنی قید اور قتل کئے جانے سے پناہ اور حفاظت) طلب کر لی لیکن آپ کو امان ملنے کا پتا نہ چل پایا۔([5])

تختی دیکھی:آپ سمندر کے پاس پہنچے تو وہاں ایک تختی پر آیتِ مبارکہ لکھی تھی:

(وَكَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّؕ-قُلْ لَّسْتُ عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ(۶۶))

ترجمۂ کنزُ العرفان: اور تمہاری قوم نے اس کو جھٹلایا حالانکہ یہی حق ہے۔ تم فرماؤ، میں تم پر نگہبان نہیں ہوں،([6]) اسے پڑھ کر آپ مکہ واپس آگئے۔([7]) مشہور قول کے مطابق حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کشتی میں سوار ہوگئے تھے پھر جب کشتی (کھلے سمندر میں پہنچی اور) تیز ہوا سے ڈولنے لگی تو مَلّاح نے کشتی والوں سے کہا: ایک خدا کے ہوجاؤ، بے شک! تمہارے (جھوٹے) معبود تمہیں یہاں کوئی فائدہ نہیں دیں گے، آپ نے یہ سُن کر کہا: اگر ایک معبود (برحق) ہی یہاں سمندر میں نجات دے سکتا ہے تو خشکی میں بھی کوئی دوسرا نجات نہیں دے گا، اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس مصیبت سے نجات دے دی تو میں محمدِ عربی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پاس جاکر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ دوں گا،([8]) ایک روایت میں ہے کہ کشتی میں سب لوگ اللہ کو پکارنے لگے اور مدد مانگنے لگے، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تَو بتایا گیا: یہاں تو صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے، کہا: یہ تو محمدِ عربی کا خدا ہے جس کی طرف وہ ہمیں بلاتے ہیں تم لوگ مجھے واپس ان کی طرف لے جاؤ،([9]) ساحل پرپہنچے تو زوجہ سے ملاقات ہوگئی انہوں نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب سے امان ملنے کی خوش خبری سنائی۔([10])

خوش آمدید: حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ ابھی مکہ کے قریب پہنچے تھے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: عکرمہ تمہارے پاس مؤمن اور مہاجر بن کر آرہا ہے اس کے باپ (ابوجہل) کے بارے میں سخت جملہ نہ کہنا کہ اس سے زندہ کو تکلیف پہنچتی ہے اور مردہ کو کچھ نہیں ہوتا،([11]) آپ حجرۂ اقدس کے دروازے پر پہنچے تو نبیِّ کریم خوشی سے کھڑے ہوگئے۔([12]) اور یہ کلمات کہے: ہجرت کرنے والے سوار کو خوش آمدید!([13]) قبولِ اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات بھی کہے تھے: میں نے جس قدر مال راہِ خدا میں رکاوٹ ڈالنے میں خرچ کیا اب اس سے دُگنا (Double) راہِ خدا میں خرچ کروں گا، جتنا راہِ خدا کے خلاف لڑا اب اس کا دُگنا راہِ خدا میں لڑوں گا۔([14])

کلامِ الٰہی سے محبت: آپ کو کلامِ الٰہی سے اتنی شدید محبت ہوگئی تھی کہ قراٰنِ کریم کو اپنے ہاتھ میں لیتے پھر چہرے پر رکھتے اور روتے ہوئے کہتے جاتے: یہ میرے رب کی کتاب ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔([15]) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو سَن 10ھ میں قبیلۂ ہوازن کے صدَقات جمع کرنے کی ذمّہ داری عطا کی تھی۔([16])

مجھے مال کی ضرورت نہیں: ایک جنگ کی تیاری ہورہی تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لشکر کا معائنہ کرنے تشریف لے آئے، ایک خیمہ پر نظر پڑی جس کے آس پاس 8 گھوڑے، متعدَّد نیزے اور سامانِ جنگ نظر آیا، قریب گئے تو خیمہ میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ موجود تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کیا، اور دعا دی پھر(جنگ کے اخراجات کیلئے) کچھ رقم دینی چاہی، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: مجھے اس کی ضرورت نہیں میرے پاس 2ہزار دینار ہیں، یہ سُن کر صديقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ کے لئے دعائے خیر کی۔([17])

معرکہ آرائی: حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے خلافتِ صدّیقِ اکبر میں پہلے مُسَیْلِمَہ کذّاب کی فوج پر حملہ کیا لیکن کامیابی نہ ملی، اس کے بعد عمان اور پھر بلادِ مَہرہ سے لے کر صَنْعَاء تک کے مرتدوں([18]) کو سبق سکھایا جن میں سے کچھ قبائل توبہ کرکے ایمان لے آئے،([19]) ایک بار میدانِ جنگ میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے اتر کر لڑنے لگے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ایسا نہ کریں! آپ نے عرض کی: مجھے چھوڑ دیجئے، آپ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر (ایمان لانے میں) پہل کرچکے ہیں جبکہ مَیں اور میرا باپ رسولُ اللہ پر بہت سخت رہے۔([20])

شہادت: ایک قول کے مطابق آپ کی شہادت جنگِ یرموک میں ہوئی جوکہ اُردن میں لڑی گئی: ماہِ رجب 15ھ جنگِ یرموک میں کئی صحابہ شدید زخمی ہوئے، اسی حالت میں صحابیِ رسول حضرت حارث بن ہِشام رضی اللہ عنہنے پانی مانگا، پانی پیش کیا گیا تو انہیں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ زخمی نظر آئے، انہوں نے پانی پئے بغیر فرمایا: پانی عکرمہ کو دو، آپ نے حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کو زخمی دیکھا تو پانی پئے بغیر فرمایا: پانی انہیں دے دو، پانی ابھی حضرت عیاش کےپاس نہ پہنچا تھا کہ وہ شہید ہوگئے، یوں تینوں معزز صحابہ پانی پئے بغیر ہی شہید ہوگئے رضی اللہ عنہم۔([21]) مزارِ مبارک اُردن کے علاقے عجلون میں ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])تاریخ ابن عساکر،41/64

([2])المغازی للواقدی،ص852

([3])المغازی للواقدی،ص870

([4])المنتقی لابی عروبہ، ص44ملخصاً

([5])المغازی للواقدی،ص851 ملخصاً

([6])پ7،انعام:66

([7])سیر السلف الصالحین،ص278

([8])دلائل النبوۃ للبیہقی، 5/59

([9])معجم کبیر، 17/372

([10])کنز العمال، 7/323، حدیث:37416

([11])المغازی للواقدی، ص851

([12])مستدرک، 4/263، حدیث: 5103

([13])ترمذی، 4/336، حدیث: 2744

([14])المغازی للواقدی، ص852

([15])الجہاد لابن المبارک، ص57

([16])الاصابہ، 4/443

([17])اسد الغابہ، 4/79

([18])مرتد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے امرکا انکار کرے جو ضروریات دین سے ہو جیسے زکوٰۃ کا انکار کرنا۔

([19])المنتظم، 4/85- الاکتفاء للكلائی، 2/157-الکامل فی التاریخ، 2/229 ملخصاً

([20])الجہاد لابن المبارک، ص56، رقم:54

([21])اسد الغابہ، 1/515-الاستیعاب، 1/366 ملخصاً


Share