تفسیر قراٰنِ کریم
صبر اور انبیاء علیہم الصّلوٰۃ و السّلام (دوسری قسط)
*مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳))
ترجمہ: بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔(پ 2، البقرۃ:153)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر:
حضرت یوسف علیہ السّلام اور صبر:
خدا کے صابر بندوں میں حضرت یوسف علیہ السّلام کا مقام و مرتبہ بھی نہایت بلند ہے۔آپ کےاپنے بھائیوں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی۔ آپ کو کنویں میں ڈالا گیا۔ وہاں سے نکال کر بطورِ غلام منڈی میں فروخت کیا گیا،جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:
(اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا یَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ(۹) قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَ اَلْقُوْهُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۱۰))
ترجَمۂ کنزالعرفان: یوسف کو مار ڈالو یا کہیں زمین میں پھینک آؤ تاکہ تمہارے باپ کاچہرہ تمہاری طرف ہی رہے اور اس کے بعد تم پھر نیک ہوجانا۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف کو قتل نہ کرو اور اسے کسی تاریک کنویں میں ڈال دو کہ کوئی مسافر اسے اٹھالے جائے گا۔اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔(پ 12، یوسف:9، 10)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
پھر زمانہ گزرتے گزرتے بادشاہ کے محل تک پہنچے۔ وہاں آپ کے خلاف سازشیں ہوئیں۔ قید خانے کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پھر خدا کے فضل سے سرخروئی ملی اور مصر کی ولایت نصیب ہوئی۔ ولایتِ مصر کے دوران ایک طویل قحط کا سامنا ہوا، بچپن سے لے کر ولایتِ مصر کے زمانے سمیت آزمائشیں ہی آزمائشیں رہیں، لیکن آپ نے اِن تمام مصائب میں صبر کیا اور اللہ تعالیٰ کی رِضا پر راضی رہے اور فرمایا:
(قَالَ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲))
ترجَمۂ کنزُ العرفان: فرمایا: آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(پ 13، یوسف:92)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
پھر آپ کے اِسی صبر واِحسان کی اللہ تعالیٰ نے یوں شان بیان فرمائی:
(وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَلَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶))
ترجمہ: اور ایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین میں اقتدار عطا فرمایا، اس میں جہاں چاہے رہائش اختیار کرے، ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔(پ 13، یوسف:56)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضرت ایوب علیہ السّلام اور صبر:
حضرت ايوب علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت مال و دولت، زمین و جائیداد، مویشی، غلام اور اولاد عطا فرمائی تھی۔ پھر جب آپ علیہ السّلام کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا، تو یہ سب چیزیں واپس لے لی گئیں، چنانچہ آپ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر فوت ہو گئی، باندی غلام بھی ختم ہو گئے، تمام جانور، جن میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے، یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔اِس طرح کے انتہائی آزمائش کُن حالات میں بھی جب آپ علیہ السّلام کو اُن چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی، تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجالاتے اور فرماتے تھے ”میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا، میرے پاس تھا، جب اس نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں۔“ اس کے بعد آپ علیہ السّلام جسمانی آزمائش میں مبتلا ہو گئے، تمام جسم شریف میں آبلے پڑگئے اور تمام بدن مبارک زخموں سے بھر گیا، لیکن آپ اِس حالت میں بھی صبر اور خدا کا شکر ادا کرتے رہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اِس خوبی کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا:
(اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(۴۴))
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے، بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔ (پ23،صٓ:44) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور مصیبتوں اور پریشانیوں میں آپ کے ”رجوع الی اللہ“ کو یوں بیان کیا گیا:
(وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ(۸۳))
ترجَمۂ کنزالعِرفان: اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(پ 17، الانبیآء:83)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور صبر:
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا صبر اور عالی ہِمَّت ہونا آپ کی سیرت سے عیاں ہے۔ آپ علیہ السّلام نے برسوں تک ایک وعدے کی وجہ سے حضرت شعیب علیہ السّلام کی بکریاں چَرائیں۔ نبوت کا منصب ملنے کے بعد فرعون کے دربار میں جاکر زور دار انداز میں اعلانِ حق کیا، فرعون کی ربوبیت کو رَد کرکے خدا کی ربوبیت و وحدانیت کا پیغام دیا، حالانکہ اُس وقت فرعون کا اِستبداد، ظلم و ستم اور قہر و جبر سب کو معلوم تھا، مگر ایک طویل عرصے تک ایسے خوفناک ماحول میں فرعون کا مقابلہ کرتے رہے، کہ جب وہ اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ آپ کا جانی دشمن بن چکا تھا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
(وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْیَدْعُ رَبَّهٗۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَكُمْ اَوْ اَنْ یُّظْهِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ(۲۶))
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور فرعون نے کہا:مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے رب کو بلالے۔بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فسادظاہر کرے گا۔(پ 24، المؤمن:26)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
پھر اُس سے نجات پانے کے بعد اپنی قوم کے ساتھ ہونے والے معاملات جداگانہ طور پر انتہائی صبر آزما تھے، مگر آپ پھر بھی صبر کرتے رہے اور آپ کے صبر کی تعریف خود نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں فرمائی: يرحم اللہ موسى قد اوذي باكثر من هذا فصبر۔ترجمہ:اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم فرمائے، کہ وہ اِس سے زیادہ ستائے گئے تھے اور اُنہوں نے صبر کیا تھا۔(بخاری، 2/442، حدیث:3405)
نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صبر:
نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کتابِ حیات کے اوراق کا سرسری مطالعہ ہی اِس حقیقت کو عیاں کر دیتا ہے کہ آپ کی زندگی کس قدر آزمائشوں اور تکلیفوں سے بھری ہوئی تھی اور اِس حقیقت کے متعلق آپ نے خود واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ جتنا میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ڈرایا گیا ہوں، اتنا کوئی اورنہیں ڈرایا گیا اور جتنا میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ستایا گیا ہوں، اتنا کوئی اورنہیں ستایا گیا۔(ترمذی، 4/213، حدیث:2480) چنانچہ مکی زندگی کے تکلیف دَہ واقعات کا تسلسل، کفار کی ایذا رسانیاں، جادو، جنون اور کہانت کے طعنے، شعبِ ابی طالب میں تین سال کی محصوری، طائف میں سرداروں اور اَوباشوں کی دی گئی تکالیف، ماننے والوں کو ستایا جانا، حالتِ سجدہ میں آپ پر مَعاذَاللہ اوجھڑی کا رکھا جانا، اہلِ ایمان کا مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہوجانا، خود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہجرت کرنا، پھر بعدِ ہجرت کفار کی طرف سے مسلسل جنگیں اور منافقین کی سازشوں کا مقابلہ کرنا، الغرض آپ کی حیاتِ طیبہ صبر، ہمت، عزم اور حوصلے کی عظیم ترین نشانی ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اِس صابرانہ شان کا راز یوں واضح فرمایا: اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ اُولُوا الْعَزم رسولوں سے یہ پسند فرماتا ہے کہ وہ دنیا کی تکلیفوں پر اور دنیا کی پسندیدہ چیزوں سے صبر کریں، پھر مجھے بھی انہی چیزوں کا مکلَّف بنانا پسند کیا، جن کا اُنہیں مکلَّف بنایا، تو ارشاد فرمایا :
(فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ)
ترجمہ: تو (اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہِمَّت والے رسولوں نے صبر کیا۔(پ 26، الاحقاف:35)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لیے ا س کی فرمانبرداری ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لیے اس کی فرمانبرداری ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم! میں ضرور صبر کروں گا جس طرح اُولُوا الْعَزم رسولوں نے صبر کیا اور قوت تو اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے۔
(اخلاق النبی وآدابہ لابی شیخ اصبہانی، ص154، حدیث:806)
اور انسانوں کی آبادکاری کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِصلاحِ اُمَّت اور تزکیۂ نفوسِ انسانیت کا سلسلہ شروع فرمایا اور اِس عظیم مقصد کے لیے انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃ والسَّلام کو مبعوث فرمایا جانے لگا۔ اُن کی بِعثت کا اَوَّلین اور بنیادی مقصد یہی ہوا کرتا تھا کہ وہ خدا کے بندوں کو معبودانِ باطل کی پرستش سے ہٹا کر خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں جھکنے کی تلقین کریں، چنانچہ اِس سلسلۂ تبلیغ کے دوران آنے والے مصیبتوں کے پہاڑ اور قدم قدم پر مشکلات کے مقابلے میں حلم وبردباری، صبر وتحمل اور مخالفین سے عفو ودرگزر کا معاملہ کرنا، اُن خاصانِ بارگاہِ اِلٰہیہ کا خاص وصف رہا ہے، چنانچہ حضرت سیدنا نوح علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کےطویل عرصے تک دعوتِ اسلام پیش کرنے کے باوجود اکثرقوم کا ایمان نہ لانا،حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا آگ میں ڈالا جانا،اپنے حقیقی بیٹے کو قربانی کے لیے پیش کردینا اور پھر عراق سے فلسطین تک اپنی اہلیہ اور بھتیجے کے ساتھ سینکڑوں کلومیٹر کی ہجرت کرنا، حضرت سیدنا ایُّوب علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا مختلف مصیبتوں کا سامنا کرنا،ان کی اولاد اور اموال کا ختم ہوجانا،حضرت سیدنا موسیٰ علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا مختلف آزمائشوں میں مبتلا رہنا اور پھر مصراورمَدْیَن کی طرف ہجرت کرنا،حضرت عیسیٰ علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا ستایا جانا اور بہت سارے انبیائے کرام علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہم الصّلوٰۃُ والسّلام کا شہید کیا جانا، یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی لازوال اور تابِنْدَہ مثالیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و عافیت کی زندگی عطا فرمائے اور اگر کوئی مشکل آئے تو صبر کی سعادت عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی
Comments