Book Name:Akhlaq-e-Mustafa Ki Jhalkiyan
اَخلاقِ مُصْطَفٰے کی بہترین مثال
حضرت سَیِّدُنا زید بن سَعنَہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ جو (اسلام لانے سے)پہلے ایک یہودی عالِم تھے ، انہوں نے ایک بار حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کچھ کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مُدّت میں ابھی 2 یا 3 دن باقی تھے کہ اُنہوں نے مسجد میں حضور ، سراپا نور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دامن و چادر پکڑ کر نہایت تیز نظروں سے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھتے ہوئے یوں کہا : اے محمد ( صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ )!عبدالمطّلِب کی ساری اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حُقُوق اَدا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اورٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر امیرُ المومنین حضرت سَیِّدُنا عُمَر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے نہایت غضب ناک نظروں سے گھُورتے ہوئے اُس سے کہا : اےاللہ پاک کے دُشمن!کیا تو اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایسی گُستاخی کر رہا ہے؟اللہ پاک کی قسم! اگر حضورِ اکرم ، نورِ مجسّم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَدب کا لحاظ نہ ہوتا تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سَر اُڑا دیتا۔ یہ سُن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(بطورِ عاجزی) فرمایا : اے عُمَر! تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مجھے اَدائے حق کی ترغیب دے کر اور اِس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کرکے ہم دونوں کی مدد کرتے۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دِیا کہ اے عُمَر! اِس کو اِس کے حق کے برابر کھجوریں دے دو! اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔ حضرت سَیِّدُنا عُمَر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے جب حق سے زیادہ کھجوریں دِیں تو اُنہوں نے کہا : اے عُمَر! میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے فرمایا : چونکہ میں نے ٹیڑھی نظروں سے دیکھ کر تمہیں خوفزدہ کر دِیا تھا ، اِس لئے حضورِانور ، مدینے کے تاجور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے