Book Name:Akhlaq-e-Mustafa Ki Jhalkiyan
تمہاری دلجوئی کے لئے تمہارے حق سے کچھ زیادہ دینے کا مجھے حکم دِیا ہے۔ یہ سُن کر انہوں نے کہا : اے عُمَر!کیا تم مجھے پہچانتے ہو میں کون ہوں؟آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے فرمایا : نہیں ، کہا میں یہودیوں کا عالِم زید بن سَعْنَہ ہوں۔ امیرُ المؤمنین حضرت سَیِّدُنا عُمَرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے فرمایا : پھر تم نےرسولِ شاندار ، منبعِ انوار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایسی گستاخی کیوں کی؟ جواب دِیا : اے عُمَر! دراصل بات یہ ہے کہ میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں موجود نبوت کی تمام نشانیاں پہچان لی تھیں مگر 2 نشانیوں کے بارے میں مجھے اُن کا امتحان کرنا باقی رہ گیا تھا۔ (1) : اُن کی قُوّتِ برداشت ان کے غَضَب پر غالب رہے گی اور(2) : جس قدر زیادہ اُن کے ساتھ جہالت کا برتاؤ کِیا جائے گا ، اُسی قدر اُن کا حِلم (یعنی صبر و تَحَمُّل)بڑھتا جائے گا۔ چُنانچہ میں نے ان دونوں نشانیوں کو بھی ان میں دیکھ لیا ، اے عُمَر!آپ گواہ ہوجائیں کہ میں اللہ پاک کے رَبّ ہونے ، اسلام کے دِین ہونے اور محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوا ، میں بہت ہی مالدار آدمی ہوں ، آپ گواہ ہوجائیں کہ میں نے اپنا آدھا مال مکی مدنی سرکار ، مالک و مختار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمّت پر صدَقہ کر دِیا ، پھر یہ بارگاہِ رسالت میں آئے اور کلمہ پڑھ کر دامنِ اسلام میں آگئے۔ ([1])
ترے اَخلاق پر قُرباں ترے اَوْصاف پر واری مسلماں کیا عَدُو بھی تیرا قائل یا رسول اللہ([2])
وضاحتِ شعر : یعنی یَارسُولَاللہ! میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عُمدہ اَوْصاف اور اچھے اَخْلاق پر قربان جاؤں کہ اپنے تو اپنے ، غَیْر بھی آپ کے اَخْلاقِ حَسَنہ اور اَوْصافِ حمیدہ سے متأثِّر تھے۔