Book Name:Shaheed Ke Fazail

آیتِ کریمہ کی مختصر وضاحت

پیارے اسلامی بھائیو!  واقعۂ کربلا میں شریک ہونے والے خوش نصیب حُسینیوں کے بڑے بڑے فضائِل ہیں، ان میں بعض تو صحابہ تھے اور ہمارا سچّا پکّا عقیدہ ہے کہ ہر صحابئ نبی جنّتی ہیں۔ پِھر اس لشکرِ حُسینی میں بعض تابعِین تھے، یعنی وہ خوش نصیب جنہوں نے صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان   کی صحبت پائی، یہ بھی بڑے اُونچے رُتبے والے ہیں، پِھر اُن کا امامِ عالی مقام  رَضِیَ اللہُ عنہ  کے ساتھ ہونا، آپ پر اپنی جانیں قربان کرنا، خُود ایک بڑی فضیلت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لشکرِ حسینی اور خُود امامِ عالی مقام  رَضِیَ اللہُ عنہ  کو یہ اُونچا رُتبہ بھی اللہ پاک نے عطا فرمایا کہ اُنہیں شہادت کی نعمت نصیب فرما دی۔ یقیناً شہادت بہت بلند رُتبہ ہے۔ اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:  

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴) (پارہ:2، البقرۃ:154)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اورجو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مُردہ  نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔

سُبْحٰنَ اللہ! یہ شہید کی نِرالی شان ہے *آدمی راہِ خُدا میں لڑتے ہوئے وفات پا گیا *اُس کا سَر کٹ گیا *رُوح بدن سے نکل گئی *نمازِ جنازہ پڑھی گئی *قبر میں اُتار دیا گیا *ظاہِری آنکھیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ آدمی مَر چکا ہے مگر قرآنِ کریم فرماتا ہے: خبردار...!! یہ شہید ہے، اِسے ہر گز مُردَہ نہ کہنا، یہ زِندہ ہے۔ تمہیں شعور نہیں ہے۔

دوسرے مَقام پر اللہ پاک نے فرمایا:

وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ- (پارہ:4، آل عمران:169)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز اُنہیں مُردہ خیال نہ کرنا۔