Book Name:Shaheed Ke Fazail

شہید کے نِرالے فضائل

پیارے اسلامی بھائیو! شہید کا لفظی معنیٰ ہے: حاضِر، موجود، گواہ۔ جو بندہ راہِ خُدا میں جان کی بازی لگا دے،([1]) اُسے شہید کیوں کہتے ہیں؟ عُلَمائے کرام نے اس کی بڑی پیاری وُجُوہات لکھی ہیں؛ (1): کیونکہ شہید زندہ ہوتا ہے یعنی اُس کی رُوح ہمیشہ حاضِر ہی رہتی ہے، لہٰذا اُسے شہید کہا جاتا ہے (2):اللہ پاک اور فرشتے اُس کے جنّتی ہونے کے گواہ ہو جاتے ہیں، لہٰذا اُسے شہید کہا جاتا ہے (3):جیسے ہی اُس کی رُوح نکلتی ہے، جنّتی اِنعامات دیکھ لیتی ہے (4):یہ رُوح نکلنے کے وقت صِرْف رحمت کے فرشتوں ہی کو دیکھتا ہے، عذاب کے فرشتوں کو نہیں دیکھتا (5):فرشتے اُس کے اچھے خاتمے کے گواہ ہوتے ہیں، لہٰذا اُسے شہید کہا جاتا ہے۔([2])

مفتی احمد یار خان نعیمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے  ایک اور بڑی پیاری وجہ لکھی، فرماتے ہیں: دیگر مسلمان قیامت کے حساب کتاب سے فارِغ ہو کر جنّت میں پہنچیں گے، اِس سے پہلے اُن کی قبر میں صِرْف جنّت کی ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے مگر شہید وہ خوش بخت ہے کہ رُوح نکلتے ہی جنّت میں پہنچ جاتا ہے، وہاں سیر بھی کرتا ہے، رِزْق بھی کھاتا ہے۔([3])

شہید کی نِرالی تمنّا

پیارے آقا، مکی مَدَنی مُصطفےٰ  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  کی خِدْمت میں شہید کی زندگی کے متعلق سُوال ہوا۔ فرمایا: اُن کی رُوحیں سبز پرندوں میں ڈال دِی جاتی ہیں، عرشِ اِلٰہی سے لٹکی


 

 



[1]...مرآۃ المناجیح، جلد:2، صفحہ:413۔

[2]...فرسان النہار من الصحابۃ الاخیار، صفحہ:510ملتقطاً۔

[3]...تفسیر نعیمی، پارہ:2،  سورۂ بقرۃ، زیرِ آیت:154، جلد:2، صفحہ:87۔