Book Name:Shaheed Ke Fazail
یعنی شہید کو مردَہ کہنا تو بہت دُور کی بات ہے، اپنے دِل میں یہ خیال بھی ہر گز مت لانا، شہید دُنیا سے چلا گیا مگر اللہ پاک کے ہاں اب بھی زندہ ہے، رِزْق دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اِقبال نے زِندگی کی بہت پیاری تشریح کی ہے، لکھتا ہے:
بَر تَر اَزْ اَنْدَیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تَسْلِیْمِ جاں ہے زندگی([1])
وضاحت: یعنی زِندگی نفع و نقصان سے بڑھ کر کوئی چیز ہے، سانسیں لیتے رہنا بھی زندگی ہے اور اللہ پاک کے نام پر سَر قربان کر دینا بھی زندگی ہے۔
موت کو سمجھے ہیں غافِل اِخْتِتَامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صُبْحِ دَوامِ زندگی([2])
وضاحت: یعنی یہ غافِل لوگ ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ موت زندگی کے اِخْتِتَام کا نام ہے، نہیں...! نہیں! موت زندگی کا اِخْتِتَام نہیں ہے۔ ہاں! مَوت وہ موڑ ہے، جہاں فانِی زندگی خَتْم اور دائِمی، حقیقی، ہمیشہ رہنے والی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
حُسَین زِندہ ہیں
واقعہ بڑا مشہور ہے، آپ نے کئی بار سُنا ہو گا۔ حضرت زَیْد بن اَرْقم رَضِیَ اللہُ عنہ جو صحابئ رسول ہیں، فرماتے ہیں: یزیدی لشکر نے ظُلْم پر ظُلْم یہ ڈھایا کہ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ عنہ کا سَرِ پاک نیزے پر چڑھایا اور اُسے گلی گلی لے کر پِھرتے رہے۔