Book Name:Shaheed Ke Fazail
اے اللہ پاک! مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور اپنے رسول صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے شہر میں مَوت نصیب فرما۔([1])
آپ کی اِس دُعا پر صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان حیران ہوا کرتے تھے کہ لڑائی تو ہوتی ہے سرحدوں پر، دارُ الخلافہ میں نہ دُشمن کا حملہ ہونا ہے، نہ لڑائی ہونی ہے، پِھر مدینے کے اندر شہادت کیسے...؟ مگر اللہ پاک نے آپ کی دُعا قبول فرمائی اور عین مدینے پاک میں، مسجدِ نبوی شریف کے اندر، مُصلائے رسول پر، نمازِ فجر پڑھاتے ہوئے آپ پر حملہ ہوا اَور شہادت کے بلند رُتبے پر فائِز ہوئے۔
پتا چلا؛ ہم سچّے دِل سے شہادت کی دُعائیں کریں۔ اگر شہادت نصیب ہو گئی تو وَارے نیارے ہو جائیں گے، اگر نہ بھی نصیب ہوئی، طبعی موت ہی سے دُنیا سے گئے، تب بھی اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! شہید والا ثواب مل جائے گا۔
شہادت ہے مَقْصُود و مَطْلُوب مؤمن نہ مالِ غنیمت، نہ کِشْوَرْ کُشَائی([2])
(2): شہادت کا ثواب پانے والا دوسرا عمل
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہ ما سے روایت ہے، رسولِ ذیشان، مکی مَدَنی سُلطان صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: *جو چاشت کی نماز پڑھے *ہر مہینے 3روزے رکھا کرے اور *سَفَر ہو یا حَضَر، کسی حال میں بھی نمازِ وِتْر نہ چھوڑے، اُس کے لیے شہید والا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔([3])