Book Name:Shaheed Ke Fazail
امام عالی مقام! آپ پر سلام ہو) قبرِ اَنْوار سے آواز آتی: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ یَا اَبَا الْحَسَن اے اَبُو الحسن! تم پر بھی سلام ہو۔ ایک دِن آپ حاضِر ہوئے، سلام عرض کیا تو جواب نہ آیا۔ بڑے حیران ہوئے،زیارت کر کے واپس آ گئے، اگلے دِن پِھر حاضِر ہوئے، سلام پیش کیا تو معمول کے مطابق جواب آ گیا۔ آپ نے عرض کیا: یا سَیِّدی! کل جواب ِ سلام کا شرف نہیں بخشا، اس کی کیا وجہ تھی؟ فرمایا: اے اَبُو الحسن! کل اس وقت میں اپنے نانا جان، رحمتِ دوجہان صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ باتوں میں مَصْرُوف تھا، اس لیے جواب نہ دیا۔([1])
جُدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے، جاناں سے ملتے ہیں
ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وَصل و فرقت کی([2])
سُبْحٰنَ اللہ! معلوم ہوا؛ شہید زندہ ہیں، انہیں زندہ ماننا بھی ضروری ہے، کہنا بھی ضروری ہے۔ ان کی زندگی کا ہمیں شُعُور نہیں، ہاں! جو اَہْلِ دِل ہیں، ان سے باتیں بھی کر لیا کرتے ہیں۔
عرب کے کسی عقل مند نے بڑی پیاری بات کہی، لکھتا ہے: اِنَّ النَّاسَ یَعِیْشُوْنَ وَ یَمُوْتُوْنَ لٰکِنَّ الشُّہَدَاءَ یَعِیْشُوْنَ و یَعِیْشُوْنَ یعنی اِنسان جیتے رہتے ہیں، پِھر مَر جاتے ہیں مگر شہید جیتے ہیں، پِھر شہید ہو کر ہمیشہ کی زندگی پا جاتے ہیں۔
ایک اور صاحِب نے کہا: اِنَّ النَّاسَ یَعِیْشُوْنَ لِیَمُوْتُوْا وَلٰکِنَّ الشُّہَدَاءَ یَمُوْتُوْنَ لِیَعِیْشُوْا یعنی اِنسان جیتے ہیں تاکہ آخِر مَر جائیں مگر شہید مر تے ہیں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پا جائیں۔