Book Name:Naikiyon Me Hissa Milaiye
ایک حکمت جو سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کو اپنے سب اُمّتیوں سے پیار ہے۔ مَحْبُوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کا مزاجِ پاک یہی ہے کہ کسی سُوالی کو خالی پھیرتے نہیں ہیں۔
منگتا کا ہاتھ اُٹھتے ہی داتا کی دِیْن تھی دُوری قبول و عرض میں بَس ہاتھ بَھر کی ہے([1])
شان یہی ہے کہ کوئی سُوالی خالی پِھرتا نہیں ہے مگر سیرتِ پاک کے اس انداز سے امیر لوگ تو فیض پا سکتے ہیں، جو کروڑ پتی ہیں، اَرب پتی ہیں، جن کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے، وہ تو یہ ادائے مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم اپنا سکتے ہیں کہ جب بھی سُوالی آئے، خالی نہ لوٹائیں، دے کر بھیجا کریں۔ جو غریب ہیں، وہ اس ادا کو کیسے اپنائیں گے۔ چنانچہ مَحْبُوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے اپنے غریب اُمّتیوں کے لیے ایک ادائے پاک اپنائی، صحابی آئے، سُواری مانگی، حُضُور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے سُواری عطا نہیں فرمائی، رستہ دِکھا دیا کہ فُلاں صحابی سے جا کر لے لو، پِھر فرمایا: اِنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ بیشک بھلائی کی راہ دِکھانے والا بھی بھلائی کرنے والے کی طرح ہے۔
گویا کہ غریبوں کو یہ دَرْس دیا جا رہا ہے کہ اے وہ لوگو! جو صدقہ کر نہیں سکتے، اے وہ لوگو! جو راہِ خُدا میں لاکھوں کروڑوں خرچ نہیں کر سکتے، تم واسطہ بن جایا کرو! دینے والوں سے لے کر لینے والوں تک پہنچا دیا کرو! * کسی شخصیت سے لے کر مسجد تک پہنچا دیا کرو! *امیروں سے لے کر مدرسوں تک پہنچا دیا کرو! تمہارا یُوں درمیان میں واسطہ بن جانا، ادائے مصطفےٰ بھی ہے، ثواب کمانے کا ذریعہ بھی ہے۔