بطخ کھانا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرْع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
بطخ کھانا حلال ہے یا حرام؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کے مطابق جو پرندہ اپنے پنجوں سے شکار کرتا ہو،حرام ہے اور جو
پرندہ پنجوں سے شکار نہ کرتا ہو، حلال ہے۔ بطخ پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں میں
سے نہیں ہے لہٰذا بلاشبہ حلال ہے،اسے ذبحِ شرعی کے بعد کھایا جاسکتا ہے۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد رافِع نام رکھنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
کیا کسی بچّے کا نام محمد رافع رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
محمد رافِع نام رکھنا،شرعاً جائز ہے کہ رافع اگرچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے
مگر یہ اسمائے مشترکہ یعنی ان ناموں میں سے ہے کہ جن کا مخلوق پر بھی اطلاق جائز
ہے۔صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین میں سے متعدد صحابۂ کرام کا اسمِ مبارک رافع تھا
مثلاً رافع بن خدیج، رافع بن عمرو،وغیر
ذلک لہٰذا
محمد رافع نام رکھ سکتے ہیں البتہ مشورہ یہ ہے کہ اصل نام صرف محمد رکھا جائے کہ
احادیثِ طیبہ میں محمد و احمد نام کے متعدد فضائل و برکات بیان ہوئے اور یہ فضائل
تنہا اِن ہی اسمائے مبارکہ یعنی محمد و احمد
نام رکھنے کے ہیں لہٰذا نام صرف محمد رکھیں اور پھر پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام
مثلاً رافع وغیرہ رکھ لیں۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عورت کو نامحرم کا خون چڑھانا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
اگر کسی اسلامی بہن کو خون کی ضرورت ہو تو کیا نامحرم مرد کا خون انہیں چڑھایا جاسکتا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی نقطۂ نظر سے خون،کسی قریبی محرم رشتہ دار کا ہو یا غیرمحرم کا،نجس و
ناپاک ہے،اس کا جسم میں چڑھانا ،عام حالت میں ناجائز و حرام ہے ۔ ہاں ضرورت و شرعی
حاجت کا تحقق ہو تو اس صورت میں اب فقہائے کرام کی اکثریت نے خون چڑھانے کی اجازت دی ہے،لہٰذا جن صورتوں میں
شرعاً خون
چڑھانے کی اجازت ہے،ان صورتوں میں مسلم غیرمسلم، محرم یا غیر محرم، سب کا
خون چڑھایا جا سکتا ہے۔جائز ہے ہاں غیرمسلم کے خون سے بچنا مناسب ہے، مسلمان کا
خون میسّر ہو تو غیرمسلم کا خون نہ لیا جائے۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی
Comments