میڈیکل
اسٹور میں سرمایہ کاری (investment) کی ایک آسان صورت
سوال: میرا میڈیکل اسٹور ہے ایک شخص نے مجھے آفر دی کہ میرے پیسے بھی اس میں لگا
لو اور اس پر جو بھی پرافٹ ہو وہ دے دینا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کام میں حساب کتاب
نہیں کرپاتےاور مجھے اپنے کام میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ ماہانہ پچاس ساٹھ ہزار
روپے نفع ہی ہوتا ہے،اب میں اپنے حساب سے اس شخص کو کبھی آٹھ ہزار، کبھی دس ہزار، کبھی بارہ ہزار
روپے دے دیتا ہوں، یہ سود میں تو شامل نہیں ہوگا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں مذکور طریقۂ کار
جائز نہیں اور یوں اندازے سے رقم دینا شراکت نہیں۔ جب تک آپ شریعتِ مطہرہ کا بیان
کردہ کاروباری طریقہ اختیار نہیں کریں گےاس طرح کی انویسٹمنٹ حلال نہیں ہوسکتی۔وجہ
یہ ہے کہ جب آپ اکیلے ہیں تو آپ ہی مالک ہیں آپ کا اختیار ہے کہ کم مال رکھیں
زیادہ مال رکھیں سستا بیچیں مہنگا بیچیں، ماہانہ حساب کریں یا نہ کریں آپ کی مرضی ہے۔ البتہ زکوٰۃ کی
ادائیگی کے لئے سالانہ حساب کرنا پڑے گا، لیکن
جب آپ نے کسی دوسرے کو پارٹنر بنا لیا تو سب سے پہلےتو شرعی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔
پہلا مرحلہ تو یہ ہوگا کہ آپ دونوں کا سرمایہ (Capital) واضح ہوکہ ان کا اور آپ کاسرمایہ (Capital) کتنا ہے؟
دوسرا مرحلہ یہ ہو گا کہ چلتے
کام میں نَقْد رقم کے ساتھ ساتھ مال بھی ہوگا اور مال کو بطورِسرمایہ شامل نہیں کر
سکتے۔
پھر مال کو سرمایہ بنانے
کا حل نکل بھی آئے تو آپ کو نفع کا تناسُب بھی طے کرنا پڑے گا۔ دکان کے سامان کو سرمایہ میں کس طرح شمار کیا جا سکتا ہے اس کا
پورا ایک شرعی طریقۂ کار ہے جس پر آپ کو مستقل راہنمائی لینا ہوگی۔
تیسرا اہم مرحلہ یہ ہوگا کہ نفع کا تناسُب طے ہو
جاتا ہے تو حسبِ موقع مثلاً سال میں یا چھ ماہ بعد کلوزنگ کر کے نفع و نقصان کا
حساب لگانا ہوگا اور اسی کلوزنگ کے مطابق نفع تقسیم کرنا ہوگا۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حساب
کتاب اور کلوزنگ کی اہمیت کیوں ہے تو دیکھیےایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ پارٹنر کا یہ
حق ہےکہ اسے معلوم ہو کہ مال کتنے کا آتا
ہے کتنے کا بکتا ہے دکان میں کتنا نفع ہوتا ہے کتنے خرچے ہوتے ہیں۔ یوں جب ایک شخص
تنہا ہوتا ہے تو آزاد ہوتا ہے لیکن جب پارٹنر
شپ ہو جاتی ہے تو آپ مُقَیَّدہوجاتے ہیں اورآپ کو اس کے شرعی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔
جہاں تک حساب کتاب کی بات ہے
تو اس میں کوئی مشکل نہیں کیونکہ مال جب آتا ہے تو پہلے آپ آرڈر دیتے ہیں کہ فلاں
کمپنی کی فلاں فلاں چیزیں اتنی چاہییں اور
آنے کے بعد بھی آپ دیکھتے ہی ہیں کہ اتنے سیرپ آئے ہیں اتنی ٹیبلیٹس (Tablets) آئی ہیں جب وہ ساری چیزیں موجود ہیں تو مہینے میں اس
کا ٹوٹل کرلیں کہ اتنے کی چیزیں آئی ہیں
اتنے پیسے ہم نے دے دئیے یا دینے ہیں اور جو روزانہ کی خریدو فروخت ہو رہی ہے اس
کا بھی حساب لگا لیں کہ آج اتنی سیل ہوئی کل اتنی ہوئی تھی مہینہ میں دو مہینہ میں
اس کی کلوزنگ کر لیں،یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ جب تک کوئی کام نہیں کیا ہوتا
تو بندہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہوگا لیکن جب کرنے لگیں تو معلوم ہوتا ہے کہ
یہ بہت آسان کام ہے۔
ایک آسان حل:میڈیکل اسٹور میں
انویسٹمنٹ کی ایک آسان صورت یہ اختیار کی
جاسکتی ہے کہ میڈیکل اسٹور پر چند آئٹمز ایسے ہوتے ہیں جو مہنگے ہوتے ہیں یا جن سے
متعلق آپ چاہتے ہیں کہ یہ مال دکان میں زیادہ رکھا ہو تو زیادہ بکےگا،تو انویسٹر
کو صرف انہیں آئٹمز میں انویسٹمنٹ کی دعوت دیں۔ اگر شراکت کرنا ہےتو اس میں کچھ
رقم آپ کی ہو اور کچھ رقم انویسٹ کرنے والے کی ہو۔ یوں مشترکہ رقم سے وہ آئٹمز خرید لیں اور نفع کا ایک ریشو طے ہوجائے۔ اب ان مخصوص چیزوں میں ہی وہ دوسرا آدمی شامل ہوگا۔یوں کلوزنگ بھی آسان
ہوجائے گی اور اس میں انویسٹمنٹ بھی شاید آسان ہوجائے گی کیونکہ اب پورے کاروبار کی
کلوزنگ کرنا اور حساب مینٹین کرنا ضروری نہیں ہوگا ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ
عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
گندم کی پِسوائی کی
اُجرت میں اسی سے آٹا دینا کیسا؟
سوال: چکی والے اور
گندم پِسوانے والےمیں اگر یہ بات طے ہوتی ہے کہ چکی والا دس کلو گندم پیس کر دے گا
اور اس میں سے ایک کلو آٹا بطورِ اُجرت
رکھ لے گا اور دونوں اس پر راضی ہوں تو کیا کوئی حرج ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسلمان شریعت کے بتائے گئے اصول و ضوابط کا پابند ہے۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’نھی عن عسب الفحل وعن قفیز الطحان‘‘ ترجمہ:نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نَر جانور کی جُفتی کی اجرت اور قفیزِ طحان سے منع فرمایا ہے۔(کنز العمال، جز4،ج 2،ص35، حدیث:9640)
علّامہ بدرُالدّین عینی حنفی علیہِ الرَّحمہ اس کی
صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’وتفسیر قفیز الطحان: ان یستاجر
ثورا لیطحن لہ حنطۃ بقفیز من دقیقہ۔۔۔الخ“ ترجمہ:اور قفیزِ طحان کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے گندم پیسنے
کے لئے بیل کرائے پر لیا اور طے یہ پایا کہ اسی آٹے میں سے ایک قفیز اجرت دی جائے
گی۔ (عمدۃ القاری،ج 9،ص21)
صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ حضرت
علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”اجارہ پر
کام کرایا گیااور یہ قرار پایا کہ اسی میں سے اتنا تم اُجرت میں لے لینا یہ اجارہ
فاسد ہے۔“(بہار شریعت،ج3،ص149)
واضح رہےکہ ہمارے پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے علاوہ بھی بہت سی باتوں
سے ہمیں منع فرمایا ہے جن کے بارے میں باقاعدہ ابواب کتبِ حدیث میں موجود ہیں کہ
کون سی بیوع ممنوع ہیں اور کون سے ایسے
لین دین ہیں جو ہم نہیں کرسکتے ہمیں ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، بظاہر ہمیں
کوئی خرابی معلوم نہیں ہو رہی ہوتی لیکن شرعاً وہ کام ممنوع ہوتا ہےجیسے کچھ شہروں
میں انسان کے بالوں کی خرید و فروخت ہو
رہی ہے خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں ہی اس پر راضی ہیں لیکن شریعتِ مطہرہ فرماتی ہے کہ انسانی جسم کی تکریم اور عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے جسم کا کوئی بھی عضو فروخت نہیں کیا
جاسکتا، کیونکہ ایسا کرنا انسانی تکریم کے خلاف اور ناجائز ہے اور ایسی خریدوفروخت
سرے سے منعقد نہیں ہوتی۔لہٰذا ہمیں ہر جگہ صرف یہ نہیں دیکھنا کہ دونوں راضی ہیں
بلکہ یہ بھی دیکھنا ہےکہ اگر کسی چیز سے متعلق احادیثِ کریمہ میں ممانعت آئی ہے تو
اس سے باز رہنا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ
عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دار الافتاء اہل سنت نور العرفان ،کھارادر کراچی
Comments