پیارے اسلامی بھائیو! قراٰنِ کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے:(قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- )تَرجَمۂ کنزُ الایمان: تم فرماؤ میں اس([1]) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت۔(پ25، الشوریٰ:23)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
دورِ صَحابہ سے لے کر آج تک اُمّتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے مَحبت کا دَم بھرتے ہیں۔ حضرت علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو۔(فیض القدیر،ج 1،ص256) حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے۔(الشرف المؤبد لآل محمد، ص94) تفسیرِ خزائنُ العرفان میں ہے:حُضور سیّدِعالَم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے۔(خزائنُ العرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، ص894)
اے عاشقانِ رسول! صَحابَۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار سے کیسی محبت رکھتے تھے اوراپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا کرتے تھے! آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں:
صَحابَۂ کرام کا حضرت عبّاس کی تعظیم و توقیر کرنا:صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔(تہذیب الاسماء،ج 1،ص244، تاریخ ابنِ عساکر،ج 26،ص372)
حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔(معجمِ کبیر،ج 10،ص285، حدیث:10675)
حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہکہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت سیّدُنا عمر فاروق اور حضرت سیّدُنا عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے۔(الاستیعاب،ج 2،ص360)
سیّدُنا صِدّیقِ اکبر کی اہلِ بیت سے محبت:ایک موقع پر حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ (بخاری،ج2،ص438،حدیث:3712)
ایک بار حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(سابقہ حوالہ، حدیث: 3713)
امام حَسَن کو کندھے پر بٹھایا:حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے۔(سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161)
سیّدُنا فاروقِ اعظم کی اہلِ بیت سے مَحّبت:ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا:اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔(مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789)
خُصوصی کپڑے دئیے:ایک موقع پر حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے، پھر فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔(ریاض النضرۃ،ج1،ص341)
وظیفہ بڑھا کردیا:یوں ہی جب حضرت سیّدنافاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کے لئے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا۔(سیراعلام النبلاء،ج3،ص259)
حضرت امیرمُعاویہ کی اہلِ بیت سے محبت:حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں۔(الناھیۃ، ص59) آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰکَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے۔(تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415) آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا۔(سنن الکبریٰ للبیہقی،ج10،ص205، مؤطا امام مالک،ج2،ص259)
ایک موقع پر آپ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی:اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے۔ (الاستیعاب،ج 3،ص209)
یوں ہی ایک بار حضرت امیرمُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ آبا و اَجْداد، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں۔(العقد الفرید،ج 5،ص344) آپ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے تھے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)
ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی۔(تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)
اہلِ بیت کی خدمت میں نذارنے:حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار40کروڑ
روپے تک کا نذرانہ پیش کیا۔(سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309،طبقات ابن سعد،ج 6،ص409، معجم الصحابہ،ج 4،ص370، کشف المحجوب،ص77، مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
(الشرف المؤبد لآل محمد، ص92)
نیز آپ فرمایا کرتے تھے:اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص135)
حضرت ابوہریرہ کی اہلِ بیت سے محبت:حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔(مسند امام احمد،ج 3،ص632)
پاؤں کی گرد صاف کی:ابومہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔(سیراعلام النبلاء،ج 4،ص407)
حضرت عَمْرو بن عاص کی اہلِ بیت سے محبت:عیزار بن حریث رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں۔(تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)
پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول کا بے حَدادب و احترام کریں، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام کی محبت و احترام سکھائیں۔
اللہ پاک کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میّت کو قبر میں رکھنے کا طریقہ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں: (میت کو قبر میں لٹانے کا)افضل طریقہ یہ ہے کہ میّت کو دہنی (یعنی سیدھی) کروٹ پر لٹائیں۔ اس کے پیچھے نرم مٹی یا ریتے کا تکیہ سابنادیں اور ہاتھ کروٹ سے الگ رکھیں، بدن کا بوجھ ہاتھ پر نہ ہو اس سے میّت کو ایذا ہوگی۔(مزید فرماتے ہیں:) اور اینٹ پتھر کا تکیہ نہ چاہئے کہ بدن میں چبھیں گے اور ایذا ہوگی (اور فرماتے ہیں)اور جہاں اس میں دِقّت ہوتو چِت لٹا کر منہ قبلہ کو کردیں، اب اکثر یہی معمول ہے۔(فتاوی رضویہ،ج9،ص371)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…شعبہ تراجم المدینۃُ العلمیہ کراچی
Comments