حضرت سیِّدُنا عبدُالرّحمٰن بن عَوْف رضی اللہ عنہ عشرہ ٔ مُبَشِّرہ میں سے عظیم صحابی تھے۔ آپ کا تعلق قریش کے خاندان بنو زُہرہ سے ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں آپ کا نام عَبْد عَمْرو یا عبدُ الکعبہ تھا، سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کا نام تبدیل فرماکر عبدالرّحمٰن رکھا۔ 31یا 32سن ہجری میں حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں 72یا 75 سال کی عمرمیں وِصال فرمایااور مدینۂ منورہ کے قبرستان جنّتُ البقیع میں مَدْفون ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء،ج 3،ص43 ،44، 47،58، معجم کبیر،ج 1،ص128، رقم 262، معرفۃ الصحابہ،ج3،ص260)ذریعۂ آمدن آپ بزّاز (یعنی کپڑے کے تاجر) تھے۔(المعارف لابن قتیبہ، ص575) خُودداری مروی ہے کہ ہجرت کا حکم ملنے کے بعد حضرت سیِّدُنا عبد الرحمٰن بن عَوْفرضی اللہ عنہجب مکّےپاک سے مدینہ شریف پہنچے تو سرکارِ مدینہ، سردارِمکّہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دوسرے مہاجرین کی طرح آپ کو بھی ایک انصاری صحابی حضرت سیِّدُنا سَعْد بن رَبیعرضی اللہ عنہکے ساتھ رِشتۂ اَخُوّت (بھائی چارے) میں پِرو دیا۔ حضرت سیِّدُنا سعد بن ربیعرضی اللہ عنہ نے اس بھائی چارے کا اتنا پاس کیا کہ اپنا آدھا مال آپ کو پیش کردیا لیکن آپ نے یہ پیشکش قبول نہیں کی اور ان سے بازار کا راستہ پوچھا، نہوں نے آپ کو قَیْنُقَاع کے بازار کا راستہ بتادیا اور آپ روزانہ تجارت کے لئے بازار جانے لگے۔(بخاری،ج 2،ص4، حدیث:2048 ملخصاً) دُعائے مصطفےٰ کی برکت ایک مرتبہ سرکارِ دوجہان، مدینے کے سلطان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دلائی تو حضرت سیِّدُنا عبد الرحمٰن بن عوفرضی اللہ عنہ نے آدھا مال گھر والوں کے لئے چھوڑا اور بقیہ آدھا مال راہِ خدا میں پیش کردیا۔اس پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو دُعا سے نوازا کہ اللہ کریم اُس میں برکت عطا فرمائے جو تم نے دیا اور اُس میں بھی جو اہل و عِیال کے لئے رکھ چھوڑا۔ (تفسیر خازن،ج2،ص265)آپ رضی اللہ عنہ کودُعائے مصطفےٰ کی ایسی برکت نصیب ہوئی کہ فرماتے ہیں:’’ میں جب کوئی پتھر اُٹھاتا ہوں تو مجھے اُمّید ہوتی ہے کہ اس کے نیچے سونا ہی ملے گا۔ ‘‘یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ پررِزْق کے دروازے اس قدر کھول دیئے تھے کہ انتقال کے بعد آپ کے چھوڑے ہوئے سونے (Gold) كو کلہاڑوں سے کاٹتے کاٹتے لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے تھے۔(شفا شریف،ج 1،ص326) امام ابنِ عبد ُالبَرّ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تجارت کے معاملے میں آپ بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں،آپ نے اپنے پیچھےایک ہزار اُونٹ،تین ہزار بکریاں اور 100 گھوڑے چھوڑے۔(سیر اعلام النبلاء،ج3،ص58)اللہ والے تاجرایک موقع پرسرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ مِنْ تُجَّارِ الرَّحْمٰن عبد الرحمٰن بن عَوْف رحمٰن (اللہ پاک) کے تاجروں میں سے ہیں۔ (فردوس الاخبار،ج1،ص375، حدیث: 2789) علّامہ عبدُ الرَّؤوف مُناویرحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں: کیونکہ تجارت سے آپ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ مخلوقِ خدا کی خوشحالی میں ان کے ساتھ تعاوُن ہو اور آپ ان کو نفع پہنچانے کی نیّت سے ایک جگہ سے دوسری جگہ تجارتی ساز و سامان لے کرگئے تو چونکہ آپ کا یہ عمل خالِص اللہ پاک کے لئے تھا اس لئے آپ کی نسبت اللہ کریم کی طرف کی گئی۔(فیض القدیر،ج3 ،ص573) مال داروں میں سب سے پہلے جنّت میں داخل ہونے والے فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: میری اُمّت کے مالداروں میں سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف جنّت میں داخل ہوں گے۔(کنز العمال،جز11،ج 6،ص328،حدیث:33495)
اللہ کریم ہمیں حضرت سیِّدُنا عبدُالرّحمٰن بن عَوْف رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments