اللہ پاک کے سچے دوست

زندگی میں آسائشوں، راحتوں کےساتھ ساتھ آزمائشوں اور تکلیفوں کابھی سامنا ہوتا ہے، اللہ پاک اپنے بندوں کو کبھی مرض سے تو کبھی مال کی کمی سے،کبھی کسی رشتہ دار کی موت سے تو کبھی دشمن کے ڈر سے، کبھی کسی نقصان سے توکبھی آفات و بَلِیّات سے آزماتا ہےاور راہِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں آسکتی ہیں، انہی مصیبتوں اور آزمائشوں کے ذریعے فرماں بردار و نافرمان، محبت میں سچےّ اور محبت کے زبانی دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔

اللہ پاک کے نیک بندوں اور دوستوں پر کیسی کیسی آزمائشیں آئیں مثلاً ساڑھےنوسوسال تبلیغ کے باوجود حضرت سیّدنا نوح علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر اکثر قوم ایمان نہ لائی معبودِ حقیقی اللہ پاک کی عبادت کی طرف بُلانےاورباطل معبودوں(خداؤں) کے انکار کی وجہ سےحضرت سیّدنا ابراہیم علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کو آگ میں ڈالا گیا اسی طرح حضرت سیّدناایوب علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کابیماری میں مبتلا کیاجانا ان کی اولاد اور اَمْوال واپس لے لینا حضرت سیّدنا موسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا مِصر سے ہجرت کرنا لوگوں کا حضرت سیّدنا عیسٰی علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کو ستانا اور کئی انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ والسَّلام کوشہیدکرنا طائف کے مقام پر پیارےمکّی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےجسمِ مقدس کا لہولہان ہونا نیز آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاشَعْبِ ابی طالب میں مسلسل تین سال تک مَحْصُور(قید) رہ کر زندگی کے کٹھن (مشکل) دن گزارنا اور مکۂ پاک سے مدینۂ منورہ کی جانب ہجرت کرنا صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان اور اہلِ بیتِ اَطہار بِالخصوص شُہدائے کربلا و اَسیرانِ کربلاپرمصیبتوں کی کثرت کا ہونا، یہ سب راہِ خدا میں آنے والی آزمائشوں ہی کی داستانیں ہیں۔ مگر ان تمام مَصائب و تکالیف کے باوجود ان مبارک ہستیوں کے پائے اِسْتِقْلال (یعنی استقامت) میں ذَرّہ برابربھی فرق نہ آیا۔ ان مبارک ہستیوں نےکلمۂ حق کو بلند کئے رکھا اور مصیبتوں پر صبر کے پہاڑ بنے رہے۔ 10محرّمُ الحرام 61ہجری جمعۃ المبارک کے دن کربلا کے میدان میں نواسۂ رسول حضرت سیّدناامام حُسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے رُفَقا (Companions) کے جسموں پر تیروں،تلواروں اور نیزوں کے برسنے، میدانِ کربلامیں اَہلِ بیتِ اَطْہار کے خاندانِ عالیشان کےنوجوانوں اوربچّوں کی لاشوں کے بکھرے پڑے ہونے،شہدائےکرام کے سَر نیزوں پر بلند ہونے، یزیدی دَرِندوں کی دَرِنْدَگی اور ان کے مقابلے میں ان پاک ہستیوں کے راہِ حق میں آنے والی تکالیف پرصبرکو جب آسمان نے دیکھا تو اس سے خون برس پڑا اور سات دنوں تک اس کایہ سلسلہ جاری رہا، بیتُ المُقَدَّس کی سَرزمین کاجوبھی پتّھر اُٹھایاجاتاتواس کےنیچےبھی تازہ خون پایا جاتا۔ (دلائل النبوۃ،ج6 ،ص471،الصواعق المحرقۃ، ص194 ماخوذاً) یاد رہے کہ آزمائشیں اورمصیبتیں انسان پر اس کی دینداری کےمطابق آتی ہیں جودین میں جتنا زیادہ پُختہ ہوتا ہے اس پرآنے والی آزمائشیں اتنی ہی بڑی ہوتی ہیں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی گئی : یَارسولَ اللہ! (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سب سے زیادہ مصیبتیں کن لوگوں پر آئیں؟ فرمایا: انبیا (علیہم السَّلام)پر پھر ان کے بعد جولو گ بہتر ہیں پھر ان کے بعد جو بہتر ہیں، بندے کو اپنی دینداری کے اعتبار سے مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے اگر وہ دین میں سَخْت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سَخْت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہوتا ہے تو اللہ پاک اس کی دینداری کے مطابق اسے آزماتا ہے۔(ابن ماجہ ،ج4،ص369،حدیث:4023ملتقطاً)

عام طورپرکئی لوگ مصیبتوں اورآزمائشوں کےوقت بےصَبْرے ہوجاتے ہیں حالانکہ ہم پرمصیبتوں کاآنا ہمارے ساتھ اللہ پاک کی طرف سے بھلائی کے ارادے اور ہم سے اس کی محبت کی نشانی ہے،نیز اگر اللہ پاک کی رضاکےلئےہم نے مصیبت پر صبر کیا تو وہ آزمائش قیامت کے دن ہمارے چہرےکو روشن کرےگی، تین فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:(1)اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔ (بخاری،ج4،ص4، حدیث:5645) (2)جب اللہ پاک کسی بندے سے محبت فرماتا ہے یا اسے اپنا دوست بنانے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس پر آزمائشوں کی با رش فرما دیتا ہے۔ (الترغیب والترھیب ،ج4،ص142،حدیث:19) (3)مصیبت اپنے صاحب کا چہرہ اس دن چمکائے گی جس دن چہرے سیاہ ہوں گے۔ (معجم اوسط،ج3،ص290، حدیث:4622) اللہ کریم نے قراٰنِ پاک میں 70سے زائد مقامات پر صبر کا ذکر فرمایا اور اکثر دَرَجات و بھلائیوں کو اسی کی طرف منسوب کیا اور اس کاپھل قرار دیا ہے۔صبرکے فضائل پر 10 روایات ملاحظہ کیجئے: صبر ایمان کا نصف حصّہ ہے۔ (حلیۃالاولیاء،ج5،ص38، حدیث:6235) صبر جنَّت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا،ج 4،ص24، حدیث:16) صبر ایمان کا ایک سُتون ہے۔ ( شعب الایمان،ج1،ص70،حدیث:39) بندے کو صبر سے بہتر اور وسیع کوئی چیز نہیں دی گئی۔ (مستدرک،ج3،ص187، حدیث:3605) صبرافضل ترین عمل ہے۔ (شعب الایمان،ج7 ،ص122، حدیث:9710) صبر بھلائیوں کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ (موسوعۃابن ابی الدنیا،ج4،ص24،حدیث:17) بینائی چلی جانے پر صبر کرنے کی جزا جنّت ہے۔ (بخاری،ج4،ص6، حدیث: 5653) صبر کے ساتھ آسانی کا انتظار کرنا عبادت ہے۔ ( شعب الایمان،ج 7،ص204، حدیث: 10003) فتنے کی شِدّت پرصبر کرنے والے کو قیامت کے دن نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت نصیب ہوگی۔ ( شعب الایمان،ج 7،ص124،حدیث:9721) قیامت کے دن رُوئے زمین کے سب سے زیادہ شکر گزار بندےکو لایا جائے گا۔ اللہ پاک اسے شکر کاثواب عطا فرمائے گاپھررُوئے زمین کے سب سے زیادہ صبر کرنے والے کو لایا جائے گا تو اللہ پاک فرمائے گا: کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ اس شکر گزار کو ملنے والا ثواب تجھے بھی ملے؟ وہ عرض کرے گا: ہاں میرے ربّ ۔ اللہ پاک فرمائے گا: ہرگزنہیں! میں نے تجھے نعمت عطا کی تَو تُونے شکر کیا اورمصیبت میں مبتلا کیا تَوتُونے صبر کیا۔آج میں تجھے دُگنا اَجْر عطا کروں گاپھر اسے شکرگزار سے دُگنا اَجْر عطا کیا جائے گا۔(تفسیرِنیشاپوری،پ1، البقرة،تحت الآیۃ:155،ج1،ص442)

تمام عاشقانِ رسول سےمیری فریادہےکہ اللہ پاک کی رضا کے لئےراہِ حق میں آنےوالی مصیبتوں اورآزمائشوں پر صبرکیجئے، اس کے دین کی سَربُلَندی کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تَر کردیجئے، اللہ پاک کی رحمت سے قوی امید ہے کہ وہ کربلا والوں کے صدقے میں ہماری قَبْر وآخِرت کوضرور روشن فرمائے گا۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

وہ عشقِ حقیقی کی لذّت نہیں پا سکتا
                               جو رنج و مُصیبت سے دوچار نہیں ہوتا
(وسائلِ بخشش (مُرمَّم) ص 164)

نوٹ: یہ مضمون نگرانِ شوریٰ کے بیانات اور گفتگووغیرہ کی مدد سے تیار کر کے انہیں چیک کروانے کے بعد پیش کیا گیا ہے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری


Share