حاضر وناظِر

اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیبِ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بےشُمار کمالات  عطا فرمائے ہیں جن میں سے ایک حاضِر و ناظِر ہونا بھی ہے۔

حاضِرو ناظِر کا مطلب حاضِر و ناظِر ہونے کا معنیٰ یہ ہے   کہ قُدسی ( یعنی اللہ کی دی ہوئی) قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالَم (یعنی سارے جہان، زمین و آسمان، عرش و کرسی، لوح و قلم، ملک و ملکوت) کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دُور و قریب کی آوازیں  سُنے یا ایک آن (لمحہ بھر) میں تمام عالَم کی سیر کرے اور سینکڑوں مِیل دُور حاجت مندوں کی حاجت رَوائی کرے۔ یہ رفتار خواہ رُوحانی ہو یا جسمِ مثالی کے ساتھ ہو یا اسی مبارک جسم سے ہو جو قَبْر میں  مَدفون ہے۔(جاء الحق،ص116ملخصاً)

ضروری وضاحت ہمارا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ حُضُورِ اکرم، نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ظاہری جسمِ اَقْدس ہر ہر جگہ موجود ہے،البتّہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیک وقت ایک سے زائد مقامات پر جلوہ فرما ہوسکتے ہیں۔(من عقائد اہل السنۃ، ص318ملتقطاً)

حاضِرو ناظِرکے مفہوم کو ایک مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح آسمان کا سورج اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر ہے لیکن اپنی روشنی اور نورانیّت کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہے اسی طرح (بلاتشبیہ) آفتابِِ نبوت، ماہتابِِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنے جسمِ اَقْدس کے ساتھ مدینہ شریف میں  اپنے مزارِ پُراَنوار میں موجود ہیں لیکن ساری کائنات کو  یوں دیکھتے ہیں جیسے ہاتھ کی ہتھیلی کو،نیز اُمّتیوں کےاعمال کو دیکھتے ہیں اور اللہ کے حکم سے تصرُّف بھی فرماتے ہیں۔

آیتِ قراٰنی اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:(اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸)) تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔(پ26، الفتح:8)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفاسیر (1)حضرت علّامہ علاء الدّين علی بن محمد خازِن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اے پیارے حبیب! بے شک ہم نے آپ کو اپنی اُمّت کے اَعْمال اور اَحْوال کا مُشاہَدہ فرمانے والا بناکر بھیجا تاکہ آپ قِیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں  ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنّت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں، نافرمانوں  کو جہنّم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بناکربھیجا ہے۔(تفسیرخازن، پ26،الفتح، تحت الآیۃ:8،ج 4،ص146)

(2)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:بیشک ہم نے تمھیں بھیجا گواہ اور خوشی اور ڈر سناتا کہ جو تمہاری تعظیم کرے اُسے فضلِ عظیم کی بَشارت دو اور جو مَعَاذَ اللہ بے تعظیمی سے پیش آئے اسے عذابِ اَلیم کا ڈر سناؤ، اور جب وہ شاہد وگواہ ہوئے اور شاہد کو مشاہدہ درکار، تو بہت مُناسِب ہوا کہ اُمّت کے تمام افعال و اقوال و اعمال و احوال اُن کے سامنے ہوں۔(اور اللہ  پاک نے آپ کو یہ مرتبہ عطا فرمایاہے جیساکہ) طبرانی کی حدیث میں  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:اِنَّ اللہ رَفَعَ لِیَ الدُّنْیَا فَاَنَا اَنْظُرُ اِلَیْھَا وَاِلٰی مَا ھُوَ کَائِنٌ فِیْھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کَاَنَّمَا اَنْظُرُ اِلٰی کَفِّیْ ھٰذِہٖ بے شک  اللہکریم نے میرے سامنے دنیا اٹھالی تومیں دیکھ رہا ہوں اُسے اور جو اس میں قِیامت تک ہونے والا ہے جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔(کنز العمال، جز:11،ج 6،ص189، حدیث:31968، فتاویٰ رضویہ،ج 15،ص168ملخصاً)

آیتِ قراٰنی اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:( وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(پ 2، البقرۃ:143)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت کی تفسیر میں حضرت سیّدُنا امام ابنِ جَرِیر طَبَری رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوسعید خُدْری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ--بِمَا عَمِلْتُمْ اَوْ فَعَلْتُمْ یعنی تم جو جو اعمال و افعال کرتے ہو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن سب پر گواہ ہوں گے۔(تفسیر طبری، پ2، البقرۃ، تحت الآیۃ:143،ج 2،ص10، حدیث:2186)

احادیث مبارکہ: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کثیر فرامین میں ”حاضِر و ناظِر“ کا مفہوم موجود ہے مثلاً (1)حضرت سیّدُنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک  نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں   نے اس کے مشرقوں اور مغربوں (یعنی تمام جوانب و اطراف) کو دیکھ لیا۔(مسلم، ص1182، حدیث:7258) (2)حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حُضُور نبیِّ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے میرے سامنے دنیا پیش فرمادی، میں دنیا  اور اس میں پیش آنے والے قِیامت تک کے واقعات کو اپنی اس ہتھیلی کی طرح دیکھ رہا ہوں۔(مجمع الزوائد،ج 8،ص510، حدیث:14067)

مُحَقِّقِین بُزُرگانِ دین کے ارشادات(1)حضرت امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابومنصور عبدُالقاہِر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں:قَالَ الْمُتَكَلِّمُونَ الْمُحَقِّقُونَ مِنْ اَصْحَابِنَا اَنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، وَاَنَّهٗ يَسَرُّ بِطَاعَاتِ اُمَّتِهٖ وَيَحْزَنُ بِمَعَاصِي الْعُصَاةِ مِنْهُمْ یعنی ہمارے اصحاب میں سے محقق متکلمین فرماتے ہیں: بے شک ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم اپنی وفات کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنی اُمّت کی نیکیاں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور ان کی نافرمانیاں دیکھ کر غمزدہ ہوتے

ہیں۔(الحاوی للفتاوی،ج2،ص180)

(2)شارح بخاری حضرت امام احمد بن محمد قَسْطَلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لَا فَرقَ بَينَ مَوتِهٖ وَحَيَاتِهٖ فِي مُشاهَدَتِهٖ لِاُمَّتِهٖ، وَمَعرِفَتِهٖ بِاَحْوَالِهِم وَنِيَّاتِهِم وَعَزَائِمِهِم وَخَوَاطِرِهِم، وَذٰلِكَ عِندَهٗ جَليّ لَا خَفاءَ بِهٖ یعنی اپنی اُمّت کا مشاہدہ فرمانے، ان کے حالات، دِل کے ارادوں، نیّتوں اور ان کے راز جاننے میں نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفات اور حیات میں کوئی فرق نہیں۔ یہ تمام چیزیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاں ظاہر ہیں ان میں سے کچھ پوشیدہ نہیں۔(مواھبِ لدنیہ،ج 3،ص410)

(3)شیخِ محقق علّامہ عبدُالحق مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عُلَمائے اُمّت میں اس مسئلہ میں ایک شخص کا بھی اختلاف نہیں کہ نبیِّ پاک   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حقیقی زندگی کے ساتھ دائم و باقی ہیں، اس بات میں کسی قسم کا شبہ یا کوئی تاویل نہیں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُمّت کے حالات پر حاضر وناظر ہیں۔ (سلوک اقرب السبل مع اخبار الاخیار، ص 155)ایک مقام پر فرماتے ہیں:شاہد کا معنی ہے اُمّت کے حال، ان کی نجات و ہلاکت اور تصدیق و تکذیب پر حاضر اور عالِم۔(مدارج النبوۃ،ج1،ص260)

(4)حضرت شاہ عبدُالعزیز مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اے لوگوتم پر تمہارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت کے دن اس لئے گواہی دیں گے کہ وہ نُورِ نبوت سے ہر پرہیزگار کے مرتبہ و مقام کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ فلاں میرا اُمّتی کس درجہ پر پہنچا ہوا ہے اور یہ کہ اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ میرے فلاں اُمّتی کی ترقّی میں فُلاں چیز رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ پس نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہارے گناہوں، ایمان کے درجات، اچّھے بُرے اَعْمال اورتمہارے خُلوص و مُنافَقَت کو پہچانتے ہیں۔(تفسیر عزیزی، پ2، البقرۃ، تحت الآیۃ:143،ج 1،ص636)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                    صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی


Share

حاضر وناظِر

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود وہ اپنی شریعت کی تبلیغ کرنے کے بجائے ہمارے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔(خصائص کبریٰ،ج2،ص329)

اِس عقیدۂ ختمِ نبوت کو قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:( مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰))تَرجَمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔(پ22،الاحزاب:40)

خودتاجدارِ مدینہصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اپنی  مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کو بیان کیا ہے :

8 فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)فَاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ بےشک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے (جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے)۔(مسلم،ص553،حدیث:3376)

(2)مجھے انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی:(1)مجھے جامع کلمات دئیے گئے (2)رُعْب طاری کرکے میری مدد کی گئی (3)میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا (4)میرے لئے ساری زمین پاک اور نَماز کی جگہ بنادی گئی (5)مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا (6)مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔(مسلم، ص210، حدیث:1167)

(3)اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ بےشک رِسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔( ترمذی،ج4،ص121،حدیث:2279)

(4)اَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمّت ہو۔(ابنِ ماجہ،ج 4،ص414، حدیث: 4077)

(5)اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِيُّ الاُمِّيُّ، اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِيُّ الاُمِّيُّ ، ثلاثًا، وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي، میں محمد ہوں، اُمِّی نبی ہوں تین مرتبہ ارشاد فرمایا،، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسند احمد،ج 2،ص665، حدیث:7000)

(6)بنی اسرائیل کا نظامِ حکومت اُن کے اَنبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،ج8،ص615،حدیث:152)

(7)ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِي اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ اَوْ تُرَى لَه یعنی نبوت گئی، اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں۔ عرض کی گئی: بشارتیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:اچھا خواب کہ آدمی خود دیکھے یا اس کے لئے دیکھا جائے۔(معجم کبیر،ج 3،ص179، حدیث:3051)

(8)اَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلا فَخْرَ یعنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔(معجم اوسط،ج 1،ص63، حدیث:170، تاریخِ  کبیر للبخاری،ج 4،ص236، حدیث:5731)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مجلس اثاثہ  جات دعوتِ اسلامی کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code