از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
رَمَضانُ المبارَک1441ھ کی 25ویں رات نمازِ تراویح کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے میں ایک سوال کیا گیا کہ ہمارے والد صاحب کا ہمارے چچا اور دیگر چند رشتہ داروں سے جھگڑا ہے تو اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہم بھی ان رشتہ داروں سے تعلق توڑ کر رکھیں یا ہمیں اپنے رشتے کے مطابق ان سے بنا کر رکھنی چاہئے؟
شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ارشاد فرمایا : والدین کے جھگڑوں میں اولاد کو نہیں پڑنا چاہئے ، چچا سے بھتیجے کو صِلۂ رحمی تو کرنی ہی ہوگی ، قطعِ رحمی حرام ہے ، اگر دونوں بھائی آپس میں ناراض ہیں اور اس وجہ سے بیٹا اپنے چچا سے نہیں ملتا تو یہ نہیں ہونا چاہئے ، لڑائی چاہے والد صاحب کی اپنے بھائی سے ہو یا والدہ کی اپنی بہن سے ، اولاد اپنے والدین کی لڑائی کی وجہ سے صِلۂ رحمی کرنے سے خود کو محروم نہ کرے ، نیز بھائی بہن کو ، بھائی بھائی کو ، بہن بہن کو آپس میں ناراضیاں رکھنی نہیں چاہئیں بلکہ ہمت کرکے کچھ آگے بڑھ کر میل ملاپ کرلینا چاہئے۔ (حکایت)ہمارے بڑوں کے آپس میں کچھ مسائل ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے میری (یعنی امیرِ اہلِ سنّت کی) خالہ کے ہاں ہم لوگوں کا آنا جانا بند تھا اور نہ ہی وہ آتی تھیں۔ کھارادر میں شہید مسجد کے پاس خالہ کا گھر تھا اور میں اسی مسجد میں امامت کرتا تھا ، اللہ کے کرم سے مجھے توفیق مل گئی اور میں ہمت کرکے خالہ کے گھر چلا گیا(میرا تو ویسے بھی ان سے کوئی جھگڑا نہیں تھا) ، مجھے دیکھ کر وہ لوگ حیران ہوگئے اور کہنے لگے : تُم؟ میں نے کہا : “ ہاں! میں صلح کرنے آیا ہوں مُعاف کردو! خالو سے ملا تو انہوں نے کہا کہ تُم اتنے بڑے آدمی ہوگئے ہو اورہم سے خود ملنے آئے ہو!(یہ ان دنوں کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کو بنےہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا لیکن دعوتِ اسلامی کی وجہ سے میرا نام ہوگیا تھا) ، یوں ان سے صلح کرکے میں گھر آیا اور اپنی بہن وغیرہ کو سمجھا بُجھا کر کہا کہ میں راہ ہموار کرکے آیا ہوں لہٰذا تم لوگ خالہ کے ہاں چلے جاؤ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہ وہ لوگ بھی ان کے ہاں چلے گئے اور اللہ پاک کے کرم سے خالہ کے ہاں ہمارے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لہٰذا جن کی بھی آپس میں ناراضگیاں ہیں ان میں سے کوئی ایک پارٹی ہمت کرے تو ترکیب بن سکتی ہے ، البتہ اگر پُرانی باتیں یاد دلائیں گے کہ “ تم نے یہ یہ بولا تھا ، یوں یوں کیا تھا ، میں پھر بھی چل کر آیا ہوں “ تو ہوسکتا ہے وہ بولیں کہ دروازہ ابھی تک ہم نے بھیڑا (یعنی بند) نہیں (کیا) ہے تُو نکل جا ، تو آیا ہی کیوں ہے؟ لہٰذا جو صلح کرنے جائے اس کے اندر جُھکاؤ ہونا چاہئے کیونکہ صلح کے دروازے کی چوکھٹ تھوڑی نیچے ہے ، اگر جُھک کر جائیں گے تو داخلہ مل جائے گا ، اَکڑتے ہوئے جائیں گے تو سَر ٹکرا جائے گا اور صلح ہوگی نہیں ، بہرحال جو عاجزی کرے گا ، جُھکے گا وہی کامیاب ہوگا۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہ یعنی جس نے اللہ کی رضا کے لئے عاجزی کی اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔ (شعب الایمان ، 6 / 276 ، حدیث : 8140) لہٰذا سب کو صلح کرنی چاہئے ، اس Topic کے حوالے سے مکتبۃُ المدینہ کا ایک بہت پیارا رِسالہ ہے “ ہاتھوں ہاتھ پھوپھی سے صلح کرلی “ اس رِسالے کو پڑھ کر اللہ پا ک نے چاہا تو آپ کا ذہن بن جائے گا کہ جھگڑا نہیں صلح ہونی چاہئے۔ اللہ کریم ہمیں آپس میں صلح کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments